ہائے اکمل مرزا، خود فریبی کا سراب

نرم خو، ہر دم مسکراہٹ کی کلیوں سے سجا مکھڑااور سرعام ظلم کو للکارنے والا اکمل مرزا چپ چاپ لحد میں اتر گیا۔
اپنے سینے میں خودفریبی کے کتنے ہی فلسفے اور شاخسانے لے کر اگلے جہان سدھار گیا۔ ظالم سیاسی رہنماوں کے جعلی فلسفے ایسے کتنے ہی بانکے سجیلے اور کھرے دل کے بہادرجوانوں کی زندگیاں ویران کر گئے جو تبدیلی کے سپنوں کے سیراب کی نذر ہو گئے یا پھر راندہ درگاہ ٹھہرے۔
اکمل مرزا ایک طرف بے چین سیاسی کارکنوں کی داستان الم کا زندہ باب تھا تو دوسری جانب ہماری جدید سیاسی تاریخ کی ناقابل فراموش چشم کشا حکایت بن چکا تھا اسلامی جمعیت طلبہ ، جماعت اسلامی، پاسبان، پاکستان تحریک انصاف اور پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) تک کا سفر حیرتوں اور دل شکن تجربات کا دلچسپ مجموعہ ہے۔
اس کالم نگار کے لئے وہ ایک فرد نہیں جدوجہد کا استعارہ تھا جس کے لئے لکھا گیا تھا ‘‘ اٹھ انسانوں کے سمندر اٹھ اور بنی نوح انسان کی تقدیر بدل دے’’ وہ خوش فہمیوں اور خود فریبی کی معجونِ مرکب سے تیار کی کہانی کا باب ناتمام جوان رعنا اکمل مرزا تھا جو 70 کے عام انتخابات کی انتخابی مہم میں شوکت اسلام کے متاثر کن جلوس سے شروع ہوکر تاحال جاری ہے اپنے ہی تخلیق کردہ اس سراب کا شکار یہ گروہ کچھ سوچنے سمجھنے کو تیار نہیں ۔
سادہ طبیعت اکمل مرزا جماعت اسلامی سے وابستہ گھرانے کا روشن دماغ نوجوان تھا۔ ان کے بڑے بھائی افضل مرزا پی آئی اے مزدور یونین کے مرکزی رہنماوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ محنتی کارکن کے طورپر پہچانا جاتا تھا لیکن حلیہ اور وضع قطع روایتی نہیں تھی۔ بغیر داڑھی مونچھ اس نوجوان کی شخصیت کا ستارہ اس وقت چمکا جب محمد علی درانی جیسے جوہری کو ہیرا مل گیا اسے تراش کر میدان سیاست کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔
علی درانی نے معاشرتی مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف ظلم کو ہاتھ سے روکنے کا انقلابی دستہ ترتیب دیا تو اکمل مرزا اس کے ہراول دستے کے نمایاں سالار تھے۔ ظلم کے خلاف ’’ہر بچہ بولے یارسول اللہ ‘‘ کے روح ایمانی بیدار کردینے والے ترانوں نے معاشرے میں زلزلہ برپا کردیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھار سیاست میں نوجوانوں کے گرم لہو کا یہ نیا رنگ پولیس گردی اور دیگرناانصافیوں سے تنگ آئے عوام کے گویا دل کی آواز بن گیا۔ ’’ظلم کے خلاف پاسبان‘‘ عوامی نعرہ بن کر گلی محلے اور چوک چوراہے میں گونجنے لگا۔
اکمل مرزا کی ’’دبنگ اینٹری‘‘ آسیہ ایوب کیس کی صورت میں ہوئی۔ پاسبان نے خوف ودہشت کی علامت بدنام زمانہ پولیس انسپکٹر ’’ٹائیگر‘‘ کو للکارا۔ ’ٹائیگر‘ کا پشت پناہ اپنا یہی شیخ تھا ۔
اکمل مرزا کیسا شوریدہ سر تھا پنڈی کے ٹبی تھانے میں ہنگامہ کر کے تھانیدار کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر دیا ا کہ اس نے آسیہ ایوب نامی خاتون کی تھانے میں بے حرمتی کی اور پھر اسی کے خاندان کے خلاف ہی جھوٹا مقدمہ بھی درج کر دیا۔ وہ مظلوم آسیہ ایوب کی مدد کے لئے پولیس اوراس کے سرپرستوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا ہے۔ پھر وقت نے دیکھا سارا شہر اس نوجوان کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔وہ پاسبان کا صدر اکمل مرزا تھا۔
آسیہ ایوب کیس کے بعد اکمل مرزا اس کا ’فرنٹ فیس‘ اور چہرہ بن گئے۔ پولیس اور معاشرے کے ظلم کے خلاف عوامی نفرت کا سیلاب برپا ہوگیا۔ پولیس کا ’ٹائیگر‘ اس مہم سے اس قدر عاجز آیا کہ ایک دن اکمل مرزا کے گھر جاپہنچا اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کی ’خدا کے لئے اب بس کردو۔‘ کہہ کر اس نے ہتھیار ڈال دئیے کہ تمہاری مہم کی وجہ سے لوگ میرے بچوں کو یہ طعنے دیتے ہیں کہ تم ظالم ٹائیگر کی اولاد ہو۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے راولپنڈی کے بعد لاہور کا ’کرباٹھ‘ اور ’بھسین‘ ہو یا کراچی کا ’مچھیارہ حاجی عمر کا بیٹا نذیر‘ پاسبان مظلوم کی آواز بن گئی۔پھر اس کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ’پاسبان‘ کی اس عوامی پزیرائی کو جماعت اسلامی کی سیاسی قوت میں تبدیل کرنے کاتجربہ کیاگیا۔ پاسبان اعلیٰ مرحوم قاضی حسین احمد بن گئے۔
1993کے عام انتخابات کے موقع پر ایک نیا تجربہ ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے نام سے کیاگیا۔ محمد علی درانی نے پاسبان کے نام سے جو جوہری دھماکہ کیاتھا۔ اب قاضی حسین مرحوم ومغفور کو اس کا سپاہ سالار بناکر انتخابی لاٹری نکالنے کا منصوبہ بنایاگیا۔ پاسبان کی معاشرے میں ساکھ اور عوام کے اس پر اعتماد کو جماعت اسلامی کی ووٹ کی پرچی میں ڈھالنے کے لئے منصوبہ سازی شروع ہوگئی۔ اکمل مرزا نے ’ٹائیگر‘ کو جس طرح چوہا بنا کر عوامی غضب کو ابھارا، اس کو سیاسی نعرے کے ذریعے جوڑنے کے لئے’’ظالمو قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ ایجاد کیاگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی ’’قاضی‘‘ نہیں آرہا تھا۔ ’’قاضی‘‘ صرف اخبارات کے نصف صفحات پرشائع ہونے والے اشتہارات کے ذریعے ہی آرہا تھا جس کا زمینی حقائق سے دور کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔اصل کہانی پھر بعد کے ماہ وسال میں کھلتی چلی گئی اور سفید ریش بزرگ اس کی تاب نہ لاسکے۔
پاکستان اسلامک فرنٹ اور 1993 کے انتخابات پر اتنی تنقید ہوئی کہ محترم قاضی حسین احمد امارت سے مستعفی ہوگئے۔ سخت تنقید ہوئی کہ ’’خود فریبی‘‘ جماعت اسلامی کی جڑوں میں شامل ہے۔ خوش فہمی کے سحر میں مبتلاہونا جماعت کے بزرگوں کی گویا مستحکم روایت ثابت ہوئی۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کی سیاسی خودکشی پاسبان کی ’’شہادت‘‘ کی بھی وجہ بن گئی اور اکمل مرزا ایسے سیاسی کارکنان کا طنطنہ، ہم ہمہ اور دبدبہ ’’ظالموں‘‘ کے سامنے اسی طرح ڈھیر ہوگیا جس طرح مظلوم کے ساتھی اکمل مرزا کے سامنے ’’ٹائیگر‘‘ ایس ایچ او ڈھیر ہوگیا تھا۔ پاسبان کی اس ٹیم کے ایک کردار اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر بھی ہیں جو محمد علی درانی کی قیادت میں ظالموں کے خلاف ہراول دستے میں شریک تھے۔ اسدقیصر کو تحریک انصاف کے ذریعے ’’سیاسی انصاف‘‘ مل گیا لیکن اکمل مرزا دردر ٹھوکریں کھاتا آخر کار ’’ظالم‘‘ پشت پناہ کی سیاسی پناہ گاہ ’ مسلم لیگ(ن)‘ میں آگرا۔ ظالم کورونا کے ہاتھوں مظلوم اکمل مرزا دارفانی کو کوچ کر گیا۔ میڈیا اور سیاسی قیادت کے بت کدے میں کوئی آہ وبکا نہ ہوئی، چند روایتی بیانات؟؟؟ کچھ بھی نہیں خوش گفتار، میٹھی بولی والے افضل مرزا، حاجی مٹھا کا پیارا اکمل مرزا اب ہم میں نہیں۔لیکن خوش فہمیوں اور خود فریبی کی معجونِ مرکب کا شکار جماعت کے صالحین اسی سراب کاشکار ہیں کہ اور اس سراب کا قیدی رہنا چاہتے ہیں
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن