مغرب کو اپنے مہذب متمدن اور کلچرڈ ہونے پر بڑا زعم ہے۔ ہم مسلمانوں کو جاہل گنوار غیر مہذب اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں مگر ان کی تہذیب نسل پرستی کے حوالے سے دم توڑ جاتی ہے۔ اسلا م میں ارشاد ہے گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر عربی کو عجمی پر اورعجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ یہ صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ اس کے مظاہر اس ارشاد کے آغاز کے بعد سے ہی نظر آنے لگے تھے اور اب بھی نظر آتے ہیں مگر مہذب مغربی دنیا میں جو ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے شرمناک ہی نہیں انسانیت کی گراوٹ کی بد ترین مثالوں میں سے ہے۔گورے کالوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور کہیں تو اس جرم بے گناہی میں کالوں کی جان بھی لے لیتے ہیں۔ تاہم تمام گوروں کو ایک ہی درجے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں اچھے بھی ہونگے۔ایک ایسے ہی واقعہ نے مغرب کا مہذب چہرہ داغدار کر کے رکھ دیاہے۔ امریکہ میں گورے پولیس مین نے ایک کالے کو سگریٹ چوری کے الزام میں پکڑا۔ اس کو زمین پر گرایا اوراس کی گردن پر گھٹنا رکھ دیا۔ جارج فلائیڈ نے بار بار کہا اس کا سانس بند ہو رہا ہے مگر بے رحم گورے نے گھٹنے کا دباؤمزید بڑھا دیا تاآنکہ فلائیڈ دم گھٹنے سے موت کی وادی میں اتر گیا۔یہ کسی کی بد قسمتی تھی کہ ایک نہیں دو نہیں ، سات کیمرے چل رہے تھے ۔ویڈیو بن گئی اور وائرل بھی ہو گئی۔ ویڈیو نہ بنتی تو فلائیڈ کی زندگی بے مول رہتی۔ ویڈیو نے امریکہ میں آگ لگا دی۔ لوگ مشتعل ہو گئے۔کالوں کاساتھ گوروں نے بھی دیا۔امریکہ میں لگنے والی احتجاج اور اشتعال کی یہ آگ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ صدر ٹرمپ کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اُمڈ آیا۔ امریکہ میں امن و امان کی صورتِ حال بدتر ہو گئی۔ ایک موقع پر صدر ٹرمپ کو حفاظت کے لیے بنکر میں منتقل ہونا پڑا۔جنگ کے دوران کنکریٹ کے بنکر میں انتہائی حفاظت کے نکتہ نظر سے ایمرجنسی کی صورت میں کسی کو منتقل کیا جاتا ہے اور پھر ٹرمپ کی حفاظت اور وائٹ ہاؤس کو محفوظ رکھنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی روشنیاں بھی ایک رات بند کرناپڑیں۔ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ امریکیوں کا جارج فلائیڈ کی موت پر غصہ کم نہیں ہورہا۔اب تو اس واقعہ کے اثرات امریکہ میں صدارتی الیکشن پر بھی مرتب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی جیت کے لیے راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔اس نے امریکیوں کیساتھ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی بحفاظت واپسی کا وعدہ کیااور طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ پر اتفاق کر لیا۔امریکی ٹرمپ کے اس اقدام کے معترف تھے۔ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں جو نومبر میں ہونے ہیں،کامیابی کے امکانات طالبان کے ساتھ معاہدے سے روشن ہو گئے تھے مگر ان امکانات پر فلائیڈ کے قتل کے بعد تاریکی کے دُبیز پردے پڑ گئے ہیں۔ اس سے ٹرمپ پریشان ہیں۔اب وہ یوسف بے کارواں کی طرح نظر آتے ہیں۔فلائیڈ ایسا ہی ایک واقعہ چند سال قبل تیونس میں بھی پیش آیا تھا۔ جب ایک تعلیم یافتہ نوجوان ریڑھی والے کو پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس پر تیونس میں مظاہرے شروع ہوئے اور تیونس کے صدرزین العابدین بن علی کو اقتدارتیاگ کر ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔انہیں ہمارے نواز شریف یوگنڈا کے عدی امین کی طرح پناہ سعودی عرب میں ملی تھی۔زین العابدین بن علی جنوری 2011 کے اوائل میں اپنی حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے بعد تیونس سے راہِ فرار اختیار کرکے سعودی عرب چلے گئے تھے اور وہ تب سے ساحلی شہر جدہ میں مقیم تھے۔تا آنکہ گزشتہ سال جدہ میں انتقال کر گئے۔ان کے فرار کے بعد احتجاج اور اشتعال بھی تیونس سے باہر پھیلتا چلا گیا جس نے عرب سپرنگ کی شکل اختیار کر لی۔ لیبیا کے کرنل قذافی اس کی پھینٹ چڑھے ۔ مصر کے حسنی مبارک بھی عرب بہار کی آگ کے شعلوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔عرب سپرنگ کی آگ نے بحرین شام اور یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ فلائیڈ کی موت دیکھیں کس کس کے اقتدار کو بھسم کرتی ہے،سردست تو صدر ٹرمپ کا اقتدار لرزہ بر اندام ہے۔اور یہ ہمارے جیسے ممالک کے حکمرانوں کیلئے بھی وارننگ ہے کہ کسی بھی شخص کو حقیر نہ جانا جائے،کسی کو ستم کا نشانہ بنایا جائے اور نہ ہی بننے دیا جائے جس کے کبھی کبھی نتائج بھیانک بھی ہو سکتے ہیں۔مگر ہم پاکستانیوں کی شاید ڈھیٹ ہڈی ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن،سانحہ ساہیوال جیسے واقعات بھی تاریخ کی گرد میں دب گئے۔بلدیہ ٹاؤن کراچی کے تین سوآگ میں کوئلہ ہونے والے مزدوروں کی روحیں اور ان کے لواحقین آج بھی انصاف طلب ہیں۔لاہور کے ایل ڈی اے پلازہ میں بھی آگ لگی تھی اور اس طرح کی آگ نے کئی بار بہت سے ریکارڈ اور ہیر پھیر کے ثبوت جلا دیئے مگرانصاف کے متلاشیوں کی آہیں اور سسکیاں عرش سے ٹکرا کر واپس آجاتی ر ہیں۔مگر شاید کبھی یہ عرش میں ارتعاش پیدا کردیں لہٰذا ظالم اُس وقت سے ڈریں۔ادھر کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ان سے دنیا ہل کے رہ گئی مگر مودی کے ظلم اور ہمارے ہاں کے چینی مافیا کے ستم میں کوئی فرق نہیں آیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی کا ریٹ ستر روپے مقرر کیا جس پر عمل نہیں ہورہا۔سنا ہے مارکیٹ میں جیب والے کفن دستیاب ہیں۔
٭…٭…٭