قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور ۔ کچھ یادیں

Jun 16, 2020

اسی طرح میو ہسپتال کے ڈاکٹر امیردین کے بارے میں شنید ہے جس دن آپریشن کرنا ہوتا صبح نماز پڑنے کے بعد ، وارڈ میں آکر غریب مریضوں کو کچھ پیسے دیتے تا کہ وہ اچھی خوراک لے سکیں۔۔ ہمارے ان پروفیسر اساتذہ مین ایک ڈاکڑ ذوالفقار علی برق ،جو انگلینڈ سے تعلیم یافتہ تھے، ماہر امراض چشم تھے،شام کے وقت لوگوں کو فری دیکھنا اعزاز سمجھتے تھے۔ اور انہوں نے کوئی فیس کا بورڈ نہیں لگایاتھا اور مریضوں کا ہجوم انہوں نے اکٹھاکیا ہوتا تھااسی طرح خدا ان پر اور رحمت فرمائے ڈاکٹر لقمان صاحب بھی مریضوں کے ہجوم میں نظر نہیں آتے تھے اور حسب توفیق جو کوئی جو کچھ دے دیتا ، خود کم ہی مانگتے تھے ،اب آئندہ شائد یہ چراغ جل سکیں گے یا نہیں ۔ایک د فعہ میں اپنے روم میٹ مہدی وحید،جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں ، ایک گندے پانی کے نالے کے پاس سے پیدل گزرنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وکٹوریہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ،پروفیسر ڈاکڑ ہمدانی بھی وہیں سے گاڑی میں گزر رہے تھے ، تو انہوں نے ہمیں کہا کہ جب تک ہم ،یعنی ان کے طالب علم پہلے نہیں گزریںگے، وہ گاڑی سٹارٹ ہی نہیں کریں گے یہ بظاہر چھوٹی سی بات لگتی ہے لیکن قارئین انہی چھوٹی باتوں سے کردار کی عکاسی ہوتی ہے اور استاد شاگرد کے تعلق کو تو پھر ان بڑے کردار کے اساتذہ ہی نے بڑھاوا دیابموازنہ آج کے۔۔ ۔ قارئین ، راقم ،جو کہ ایک سٹوڈنٹ گروپ یو ایس ایف کی رہنمائی کے ضمن میں ایک پریس کانفرنس کر کے حکومت وقت سے کالج آنے جانے کے لیے بسوں کی ڈیمانڈ کی توجب اخباروں میں خبریں لگیں،تو اس وقت کے ہمارے پرنسپل ڈاکڑ رحمت چودھری نے مجھے اپنے پاس بلایا اور انتہائی پیار سے سمجھیا کہ آ پ مجھے اپنی یہ ڈیمانڈ لکھ کر دے دیں اور میرے خلاف کوئی شوکاز یا قانونی کارروائی نہ کی ۔ان کی یہ نصیحت اور پیار سے سمجھا نے کا انداز مجھے آج تک یاد ہے۔ سٹوڈنٹ یونین کے سیاسی جھگڑوں اور تشدد اور عدم برداشت نے وہاں بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ ان دنوں کوئی کلاس کم ہی خالی ہوتی تھی۔ ہمارا بیج دوسراتھا اور ابھی بمشکل ایک یا دو اور کلاسیں ہم سے جونیر تھیں۔ایسا لگتا تھا کے جیسے ایک خاندان کاسا ماحول ہو۔سوائے اکا دکا واقعات کے تاہم ایک دوسرے سے رابطے، انس اور باہمی مدد اتنی ہی عام تھی جتنی آج کل کم کم قسط 2شائد کم ملنا آج کل سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ہمارے پرنسپل ڈاکٹر نواب ،پی ایچ ڈی ،بھی ایک نابغہ روز شخصیت تھے۔انتہائی ہمدرد اور قابل اور باوقار شخصیت تھے اور انتہائی سلیس انداز میں پڑھاتے۔اب تو ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے وہ زمانہ کہیں دور چلا گیا ہے اور وقت کی اڑان نے میڈیکل کی تعلیم کی اخلاقیات کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے ،پرانے زمانے میں اگرچہ بلند و بالا عمارتیں تو نہیں تھیں،لیکن مریض مطمعن اور ہاتھ اٹھاکر دعائیں دیتے تھے۔آج بڑی بڑی عمارتیں تو ہیں۔لیکن مریض غیر مطمئن۔شائد سادگی کی جگہ ،تصنع اور بناوٹ نے لی ہے۔ آج کل تو مریض بھی یا ان کے قریبی بھی زیادہ فیس والے ڈاکٹروں سے مطمئن ہوتے ہیں اور یہ ہوا چل پڑی ہے کے جس کی فیس زیادہ ہے،وہ ہی قابل ہے۔آج کل تو ٹیوشن کے رجحان ہر سطح پر چل پڑاہے۔اور منی میکس دی میئر گو کا مقولہ شائد زیادہ صادق آتا ہے۔ آج ہسپتالوں کی بڑی اور اونچی عمارتوں کو دیکھ کر ہمیں کرشن چندر کاافسانہ ،،بڑے لوگ،، بے ساختہ یاد آجاتا ہے یاکہ شائد اب یہی وقت اور وقت کی ضرورت ہیں ۔ ۔ہمارے کالج کی عمارت ایک ویران سی جگہ پہ ہوتی تھی اور اردگرد ریت اور بہاولپور کے ریگستان کے نظارے ہواکرتے جو کہ سائیکل رکشہ چلانے والے کڑاکے دار دھوپ اور خون جما دینے والی سردی میں اس میں علیحدہ ہی نیا رنگ اور اضافہ کرتے ۔ یہ سائکل رکشہ عین تپتی ہوی دھوپ میں پاوں سے سائکل کی طرز پر جب سواریوں کو بٹھا کر کھنچتا توہم کچھ دیر کو سوشلسٹ ہونے کا سوچتے ۔اس کے علاوہ شائد یہ بنگلہ دیش میں پتا چلا کے وہاں بھی اسی طرز پر ، اسی قسم کا رکشہ چلتا سنا گیا تھا ۔ شدیدگرمی اور آندھی اور گرد کے طوفان آنا روزانہ کا معمول تھا ۔(جاری)

مزیدخبریں