ملک ایک گھر کی مانند اور حکومت باپ کی جگہ ہوتی ہے۔ جس گھر میں اولاد سلوک اور اتفاق کے ساتھ رہے ، ایک دوسرے کے لیے ایثار ہو وہی گھر خوش اور خوشحال رہتا ہے۔ باپ نے اپنی اور اولاد کی کمائی ہی سے گھر چلانا ہوتا ہے۔ کمائی باپ کے ہاتھ پر رکھ دی جائے تو وہ سب کے لیے اچھا ضرور سوچے گا۔ جب ملک گھر کی طرح کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن کو آپ ’’شریکا‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ہر اپوزیشن پھوہڑ ساس کی طرح بہو کو کوستی رہتی اور بات بے بات کوسنے بھی دیتی رہتی ہے۔ کل یہی کام آج کی حکومت اپوزیشن میں بیٹھ کر تی تھی اور کل کی اپوزیشن وہی کچھ آج حکومت کے ساتھ کر رہی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی مگر ہمارے ہاں اپوزیشن ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی طرح بجٹ تقریر کے دوران دہائی مچاتی رہی۔ آپ کو تقریر بُری لگ رہی ہو گی۔ باقی دنیا کو توسننے دو۔ اور پھر وہی بوسیدہ اور چوری شدہ نعرے۔ آٹا چور، چینی چور کے نعرے۔ نہ جانے یہ نعرے اپنے خلاف تھے یا حکومتی شخصیات کے خلاف بہرحال اپنی اپنی جگہ ہر اپوزیشن پارٹی کا ’’موگیمبو‘‘ ضرور خوش ہوا ہوگا۔کوئی لندن میں بیٹھ کر اور کوئی کراچی میں ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے لیٹے ۔
حکومت کی طرف سے متوازن بجٹ پیش کیا گیا۔ اپوزیشن ظاہر ہے اسے عوام دشمن بجٹ ہی قرار دے گی۔ ہر حکومت بجٹ کو قومی امنگوں کا ترجمان قرار دیتی اور دوسری طرف سے یہی کہا جاتا ہے بجٹ رے بجٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ایسی سوچ رکھنے والے الٹا ہوکر دیکھیں تو شاید کچھ سیدھا نظر آئے۔بجٹ اس سے کہیں بہتر بھی ہو سکتا تھا مگر ٹیکس چوروں اور ان سے بھی بڑھ کر کرونا نے صورت حال کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ کرونا کی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود ایک بہت بڑا فائدہ پٹرول کی قیمتوں میں گراوٹ سے ہوا۔تیل کی ایسی بے قدری پہلے کبھی دیکھی نہ سنی تھی۔ایک موقع پر نہ صرف تیل فری تھا بلکہ امریکہ تیل اُٹھانے کے اخراجات بھی ادا کررہا تھا۔ مگر ہر حکومت کی سائیکی ایک جیسی ہوتی ہے۔ عوام کو ایک حد تک ریلیف دینے کے بعد ساہ سُکنے لگتا ہے۔ نیتوں کو بھاگ بھی ہوتے ہیں۔ پی پی پی کے دور میں سمیٹاسمیٹی اور جھپٹا جھپٹی تھی تو پٹرول کی قیمتیں 120روپے لٹر تک چلی گئیں۔ نوازشریف دور میں عالمی مارکیٹ میںانتہائی کم ہوئیں توپاکستان میں کم ہونے لگیں اور ایک سطح سے کم کرنے میں حکمرانوں کے دل پر بوجھ محسوس ہونے لگا اور آج کی حکومت نے بھی 74روپے لٹر پر ڈھیری ڈھا دی ہے۔ حالانکہ آسانی سے 45پچاس تک لایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں مراعات کی امید رکھی جاتی ہے مگر اپنی ذمہ داری ہم اد انہیں کرتے۔ حکومت نے عوام کو ریلیف ٹیکس جمع کرکے دینا ہوتا ہے۔ اس طرح عوام کی توجہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں کبھی ٹیکس ہدف پورا نہیں ہوا تو پھر مراعات کیسے مانگی جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو لگتا ہے باپ کے خلاف اولاد بھی بغاوت پر آمادہ ہو گئی اور ’’شریکوں‘‘ کے ساتھ مل گئی ہے۔ حکومت کی بھی مجبوریاں ہیں تاہم حکومت بھی کبھی دماغ کا استعمال ترک کر دیتی ہے۔ کرونا اپنی جگہ، ٹڈل دل کے حملے بھی ہو رہے ہیں ۔معیشت دگرگوں ہے مگر آپ زندگی کو روک نہیں سکتے،اسے منجمد نہیں کر سکتے۔ اسے تنخواہوں میں معمولی سہی اضافہ کرنا ہی پڑے گا۔ شروع میں نوازحکومت نے بھی ایسی حماقت کی تھی اور پھر اس سے رجوع کر لیا تھا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بجٹ کو متوازن قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کو بہترین اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب عوام اپنی جیبیں ڈھیلی کرنے پر آمادہ ہوں گے۔
عام آدمی کو ریلیف بڑے لوگوں کے ایثار ہی سے مل سکتا ہے۔ میری زندگی کا زیادہ حصہ یورپ اور براعظم امریکہ میں گزرا۔ جہاں کاروباری اور سرمایہ کار لوگ اپنی آمدن کا نوے فیصد کارکنوں میں اجرت اور دیگر اخراجات کے طور پر دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں 5فیصد سے بھی کم اخراجات اور اجرت پر خرچ کیا جاتا اور باقی شکم تندور میں ڈال لیا جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ یہ تفاوت ختم ہو گا تو خوشحال معاشرے کی بنیاد پڑے گی اور بجٹ خساروں کے بجائے منافع کا ہواکرے گا۔
قارئین!دنیا کے نظام کو چلانے کا بس ایک ہی بین اصول ہے کہ آپ کسی گھر ، ادارے یا فیکٹری کو بجٹ ترتیب دیئے بغیر نہیں چلا سکتے۔ دراصل خوشحالی کا انحصار وسائل کی دستیابی سے منسلک ہے ۔پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف سات فیصد لوگ تھوڑا بہت ٹیکس جمع کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف سوفیصد عوام پاکستان کے اندر یورپ اور امریکہ جیسی سہولیات کے متقاضی ہیں۔ ہم سب کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمار ے ملک میں نظام تعلیم اعلیٰ اور مفت ہو ،صحت کا نیٹ ورک جامع اور فری ہو ،اسی طرح ایک ریڑھی والے سے لے کر شوگر مِل کے مالک تک کوئی بھی شخص ٹیکس دینے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا جبکہ ہم ہر بُرائی کا الزام حکومت پر تھوپ کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ایسا کب تک ہوتا رہے گا گویا ہم سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے ۔اگر ہمیں حقیقی آسائش و مراعات چاہئیں تو ہمیں ٹیکس دینے میں گریزکیوںہے؟