سری نگر(نیٹ نیوز+کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کو کرونا کی آڑ میں کشمیری نوجوانوں کو ستانے کا نیا بہانہ مل گیا ہے۔ بھارتی فورسز قرنطینہ کے نام پر وادی میں واپس آنے والے طلبہ کو طرح طرح سے ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچا رہی ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کو ستانے اور مشکلات کا ذکر طلبہ اور ان کے عزیز و اقارب سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ متعدد طلبا و طالبات کو ائیرپورٹ سے فوجی گاڑیوں میں بارڈر سکیورٹی فورس کے کیمپ لے جایا گیا اور اندر جانے سے انکار پر تشدد کیا گیا۔ بھارتی فورسز پر جنسی زیادتی کے الزامات زبان زدعام ہیں اور ایسے میں طالبات کو بھی ان مراکز میں رکھنے پر والدین شدید بے چینی میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب کرونا کے بعد وادی کے بدتر حالات کے باعث بچوں میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یونیسیف کے تحت چلنے والے ایک ہسپتال کے مطابق وبا کے باعث ذہنی مسائل سے دو چار 300 بچے سامنے آچکے ہیں۔ ادھر نیٹ نیوز بھارتی نیوز چینل 'انڈیا ٹوڈے، نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندی کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس آٹھ جون تک 43 کشمیری نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس میں نمایاں اضافہ مئی اور جون کے دوران دیکھا گیا۔ شوپیاں اور کولگام اضلاع میں گذشتہ ہفتے مارے جانے والے 16 میں سے 10 عسکریت پسندوں نے رواں سال کے دوران ہی یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ ایک عسکریت پسند وہ بھی تھا جس نے محض دو دن قبل شمولیت اختیار کی تھی۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کرونا لاک ڈائون کے دوران فوجی آپریشنز میں تیزی لانے کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ شہید نوجوانوں کے جنازوں پر جلوس نہیں ہوں گے تو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کا رجحان بھی ختم ہوگا لیکن اس کے برعکس ہوا۔ کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم جنوبی ضلع شوپیاں کے ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اکثر مقامی نوجوان ظلم ہوتے دیکھ کر ہی بندوقیں اٹھاتے ہیں۔ 'کسی میں ظلم برداشت کرنے کی قوت ہوتی ہے کسی میں نہیں ہوتی۔ وہ جذبات میں آکر بندوقیں اٹھاتے ہیں۔'حال ہی میں ہمارے ضلع شوپیاں کے ایک نوجوان کا پولیس کے مسلسل ٹارچر اور زیادتیوں کی وجہ سے ہی اس نے بندوق اٹھائی ہے'۔ مذکورہ طالب علم کے مطابق اکثر کشمیری عسکریت پسند جذباتی مگر غیر تربیت یافتہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی آپریشنز کے دوران دیر تک لڑ نہیں پاتے۔ وہ مزید کہتے ہیں: 'کشمیر افغانستان نہیں ہے۔ وہاں طالبان کے اپنے علاقے ہیں۔ وہ بہ آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ ان کے پاس ٹرانسپورٹ کے اپنے ذرائع ہیں۔ ان کی باضابطہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کشمیری عسکریت پسند ہر وقت فوج کے راڈار پر ہوتے ہیں۔ ان کو بہت کم سپیس ملتی ہے کیونکہ چپے چپے پر فوجی بنکر اور کیمپ قائم ہیں۔ رواں برس مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد 100 ہوگئی ہے۔ ان میں بعض اعلی عسکریت پسند کمانڈر جیسے ریاض نائیکو اور جنید صحرائی بھی شامل ہیں۔ فوجی آپریشنز کے دوران درجنوں رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ جزوی نقصان کھانے والے مکانات کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔