اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) اسے ہندوستان کی 14.2 فیصد مسلم آبادی کی زبوں حالی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ 1947 کے بعد سے لے کر اب تک 73 برس میں 16 لوک سبھائوں میںمنتخب ہوئے کل 8ہزار 449ارکان میں محض 477 مسلمان لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے ہیں، جن میں مسلم خواتین کی تعداد تو محض 17 ہے۔ یہ بھارتی نام نہاد سیکولرازم کے منہ پر ایسا طمانچہ ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1952 میںمنتخب پہلی لوک سبھا سے لے کر 2014 میں16 ویںلوک سبھا تک صرف اور صرف 17 مسلم خواتین بھارتی لوک سبھا میںپہنچ پائی ہیں۔ یعنی کل منتخب ہوئے ارکان لوک سبھا میںمسلم خواتین محض 0.2فیصد ہیں۔بھار تی مسلم خواتین کی سیاست میں انتہائی کم تعداد یا انتہائی ناقابل ذکر فیصد کی ذمہ دار بھارت کی تمام سیاسی پارٹیاں ہیںجو کہ مسلم خواتین کو انتخابات کے دوران نظرانداز کرتی ہیں۔ نہ ہونے کے برابر اس تعداد کا اعتراف 2006 میںآئی سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی کیا اور مسلم ڈس امپاورمنٹ کو ایک حقیقت مانا ۔ 1952 سے لے کر 2014 تک کل 603 منتخب خاتون ارکان لوک سبھا میںمسلم خواتین محض 2.9 فیصد ہیں۔اس ضمن میں گہرائی سے جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ 1947 کے بعد اقتدار میں سب سے لمبے عرصے تک براجمان رہنے والی کانگریس نے صرف دس مسلم خواتین کو لوک سبھا میںبھیجا جبکہ دیگر سیاسی پارٹیوںمیںبہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)، نیشنل کانفرنس(این سی)اور ترنمول کانگریس کی دو دو اور سماجوادی پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)(مقبوضہ کشمیر) کی ایک ایک رکن لوک سبھا میںاپنی انٹری درج کراپائی ہیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میںمسلم خواتین کی 73 برس میں مذکورہ نمائندگی صرف 5 بھارتی صوبوں اترپردیش، مدھیہ پردیش،آسام، مغربی بنگال، گجرا ت اور اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے ہو پائی ہے۔ یہ بات اور بھی حیرت انگیز ہے کہ بھارت میں اتنی ساری سیاسی پارٹیوں اور صوبوں و یونین ٹیری ٹوریز کے ہوتے ہوئے محض5 صوبے اور مقبوضہ کشمیر سے ایک مسلم خاتون لوک سبھا میںجا پائیں ۔
بھارت، 73 برس میں محض 17مسلم خواتین کو لوک سبھا کی رکنیت ملی
Jun 16, 2020