یادوں کے مدفون خزینوں سے بھی کیا کیا نعمتِ خداوندی جْڑی ہوتی ہیں۔ انسانی جبلت ہے کہ جب کبھی وہ بہت اداس ہوتا ہے تو وہ اکثر و بیشتر ماضی کے بند کواڑوں میں جھانکتا ہے۔ ایسے میں کئی بار یہ یادیں اسے ایسی ایسی لیڈ دے جاتی ہیں کہ اگر وہ ان سے راہنمائی حاصل کر لے تو اسکی نہ صرف اپنی زندگی لیل و نہار ہو جائے بلکہ وہ پورے سماج پوری قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دے۔ لازم نہیں کہ ایسے سبق آپ صرف اپنی زندگی کی یادوں سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ بسا اوقات دوسروں کی زندگیوں سے جْڑی یادیں بھی آپ اورآپ کے معاشرے کیلیئے بڑے بڑے سبق سمیٹے ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دوست ہیں اسلم ملک جنکا شمار ملک کے بڑے سنئیر صحافیوں ہوتا ہے اور جنھوں نے غالباً اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ امروز سے کیا تھا،اسے اپنی بدنصیبی کہیے کہ اس ہیرے سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن خوش بختی یہ ہے کہ اکثر و بیشتر انکی پوسٹیں اور تحریروں سے مستفید ہوتا رہتا ہوں۔ کل انکی ایک پوسٹ میں مسز تھامسن اور جیڈی کے نام سے استاد اور شاگرد کے رشتے کے حوالے سے ایک ایسا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان جیسے جیسے اسے پڑھتا ہے تو اس پر ایک رقت طاری ہو جاتی ہے کہ ایک رول ماڈل استاد مسز تھامسن، ماں کی شفقت سے محروم ایک بچے جیڈی جو اپنی ماں کی زندگی میں ایک ہونہار طالبعلم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور پھر اپنی ماں کی رحلت کے بعد احساس محرومی کا شکار ہو کر پستیوں میں گر جاتا ہے، کو کیسے دوبارہ سماج میں نہ صرف واپس لا کر کھڑا کرتی ہے بلکہ اسکی دی ہوئی توجہ جیڈی کو معاشرے میں اس مقام پر لا کر کھڑا کرتی ہے کہ وہ اپنے وقت کا ایک کامیاب ترین اور باوقار شخص جانا جاتا ہے۔ اسے سارے قصے میں استاد اور شاگرد کے مقدس رشتے کو جسطرح بیان اور اجاگر کیا گیا ہے ساری بات اس رشتے اس احساس کو سمجھنے کی ہے۔
آج جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو میرا ہمزاد مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ تمہارے ملک تمہارے معاشرے میں کوئی ایسا رول ماڈل استاد جسکی مثال مسز تھامسن سے دی جا سکے۔ ہمزاد کے سوال کے جواب میں جب اپنے سماج کی جھولی کی طرف دیکھتا ہوں تو وہاں ایک بھی ہیرا نہیں مل رہا البتہ پورے کا پورا معاشرہ کوئلہ کی ایک دکان کی مانند نظر اتا ہے۔ سوچ رہا ہوں اس قحط الرجال کا ذمہ ار کون۔ فکر کے بند کواڑ کھولتا ہوں تو سامنے چھائی کالی رات کے گھپ اندھیرے میں اپنے سماج کے علاوہ کوئی اور ذمہ ار نظر نہیں اتا جو خود اپنی گود اجاڑنے پر لگا ہوا ہے۔ ذرا سوچیئے وہ سماج جس میں کسی تعلیمی ادارے سے بطور استاد منسلک دو افراد میں سے ایک شخص سی ایس ایس کر کے ایک سال بعد اکیڈمی میں سے نکلنے کے ساتھ ہی پہلے دن لش پش ہو کر پراڈو گاڑی میں بیٹھ کر ایک گورنر کا پروٹوکال حاصل کر کے انگریز دور کے براؤن صاحب کی طرح دفتر جاتا ہے جبکہ اسکے مقابل اسکا وہ ساتھی جو تعلیم کے میدان میں نئی نسل کی آبیاری کو اپنا نصب العین بناتا ہے جب ایک سائیکل پر چڑھکر سکول کی طرف روانہ ہوتا ہے اور اسکی نظر اپنے ساتھی کی فراٹے برتی پراڈو پر پڑتی ہے تو پھر وہ کیوں مسز تھامسن کے رول ماڈل کو اپنی ترجیح بنائے گا۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کا وہ تضاد وہ عدم مساوات جو ہمیں تباہی کے گڑھے میں دھکیل چکا ہے اور ہم گردن تک اس میں اس حد تک دھنس چکے ہیں جہاں اب سانس لینا بھی دشوار ہو رہا ہے۔
کہتے ہیں قوموں اور نسلوں کی تعمیر میں دو ہستیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں پہلی ہستی انسان کی ماں اور دوسری ہستی انسان کا استاد لیکن ہماری بدنصیبی دیکھیے ہماری آج کل کی مائیں یا تو موبائل فون پر یا پھر ٹی وی سکرینوں کے سامنے ہر وقت خاندانی سیاست کے جھمیلوں میں دلچسپی لیتی نظرآائینگی۔ رہی بات استاد کی تو ہمارے ہاں جس بندے کو کوئی اور نوکری نہیں ملتی اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چلو ہور کوئی کم نہیں ملندا تے پرائمری سکول وِچ ماسٹر ای لگوا دو۔ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ لندن ایجوکیشن سیکٹر کے ایک انگریز دوست سے میری بات ہو رہی تھی اور موضوع تھا کردار سازی۔ میرے اس دوست نے صرف ایک فقرے میں وہ بات کہہ دی جسکو سمجھانے کیلئے ایک باب نہیں شاید پوری کتاب بھی کم پڑ جائے۔ اس دانشور کا کہنا تھا کہ اپ اگر اپنی قوم کا کردار بنانا چاہتے ہیں تو آپکو آج اپنے اس سکول کے بچے پر توجہ دینی پڑے گی جو آج پہلے دن سکول گیا ہے اس طرح آپکو مکمل بیس سے بائیس سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ بائیس سال بعد جو نسل پھر عملی زندگی میں حصہ لے گی وہاں سے آپکی ترقی کا عمل شروع ہو گا۔ سوچتا ہوں میرے ملک میں کیا یہ ممکن ہو گا۔ بارہ ارب روپے کے تعلیمی بجٹ کے ساتھ اپ اگر ایسے سکول کھول سکتے ہیں اور مسز تھامسن جیسے استاد لا سکتے ہیں تو یقینا اپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔