ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؑ دنیا کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کا بتایا ہوا راستہ ہی واحد صحیح اور نجات کا راستہ ہے۔حضور کریم ؑ کے بتائے ہوئے راستے کی تشریح کیلئے ہمارے پاس علمائے دین ہیں جن کا فرض ہے کہ مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی تقلید اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سیکھا کر انہیں اسلام کے سیدھے راستے پر رکھیں۔ انہیں منافرت اور گمراہی سے بچائیں۔ان لوگوں نے بھی اپنی زندگیاں دین اسلام کی ترویج کیلئے وقف کررکھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ بہت اہم فریضہ سراانجام دے رہے ہیں۔انہوں نے نہ صرف دین مصطفی کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو گمراہی اور جہالت سے بھی بچا رکھا ہے۔ ان لوگوں کا معاشرے میں بہت اہم اور محترم مقام ہے۔عوام انکی بات مانتے ہیں اور یہ انہیں بہت سی برائیوں سے بچاتے ہیں۔
یہ1945کا واقعہ ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو جو بعد میں بھارت کا پہلا وزیر اعظم بنا ۔کشمیر میں مسلمانوں کے ایک گائوں کے قریب سے گزر رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ گائوں کے باہر کی طرف ایک عمارت بنائی جا رہی تھی۔وہ وہاں رک گیا۔پوچھا یہ گائوں مسلمانوں کا ہے یا ہندوئوں کا۔اسے بتایا گیا کہ جناب یہ مسلمانوں کا گائوں ہے۔اس نے پھر پوچھا یہ عمارت کون بنوا رہا ہے۔اسے پھر بتایا گیا کہ جناب یہ مسجد ہے اور گائوں کے لوگ مل کر بنا رہے ہیں۔اس نے گائوں کے چند معززین کو بلایا۔ان کو مسجد بنانے پر شاباش دی ساتھ ہی انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ’’ اس مسجد کا امام میں آپ کو مفت بھجوائوں گا‘‘۔ مسلمان خوش ہو گئے۔ چند دنوں بعد وہاں ایک امام صاحب تشریف لائے۔ انہیں بہت عزت و احترام سے گائوں میں رکھا گیا۔ کوئی چھ ماہ بعد نہرو کا پھر ادھر سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ مسجد اسی طرح ادھوری کھڑی تھی۔ پوچھا کیا ہوا ہے۔ مسجد کیوں نہیں مکمل ہوئی۔ اسے بتایا گیا کہ جناب کے بھیجے ہوئے امام نے گائوں کے لوگوں کو شیعہ سنی کے نام پر لڑا دیا ہے۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں جو آج کل علاج کرا رہے ہیں۔ ایک پارٹی نے دوسری پارٹی پر عدالت میں کیس کر دیا ہے۔ اب دونوں پارٹیاں تاریخیں بھگت رہی ہیں۔ برادری دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک دوسرے سے بول چال رشتہ داری سب ختم ہوگئے ہیں۔ دونوں دھڑے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں۔ نہرو مسکرایا اور آگے چل پڑا۔ شاید امام بھیجنے کا اسکا مقصد بھی یہی تھا۔
دوسرا کیس جنگ دوم سابق صوبہ سرحد کا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب افواہ تھی کہ روس کی سرخ فوج وسط ایشیا سے آگے ہندوستان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لارڈ کننگھم صوبہ سرحد کا گورنر تھا۔ پٹھان اس دور میں انگریزوں کیخلاف سخت مشتعل تھے۔ جگہ جگہ وار لارڈز پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے امن و امان کی صورتحال بہت مخدوش بنا دی تھی۔ ان میں سب سے اہم جنوبی وزیرستان کا ’’فقیرآف ایپی‘‘ تھا یہ شخص چونکہ ایک اہم مذہبی لیڈر بھی تھا اس لئے بہت سے لوگ انکے ساتھ تھے۔ لارڈ کنگھم نے ایک خصوصی تھنک ٹینک قائم کیا جنہوں نے مشورہ دیا کہ اسکا واحد حل یہ ہے کہ علاقے کے علماء اور مولوی حضرات کا اعتماد حاصل کیا جائے کیونکہ انکی بات پٹھان آنکھیں بند کرکے مانتے ہیں۔ اب گورنر نے اس دور کے علماء اور مولوی حضرات کو اکٹھا کیا۔ انکی بڑی تعریف کی اور اہم مولانا حضرات کی تنخواہیں مقرر کر دیں جو دس روپے ماہانہ سے لیکر ڈیڑھ سو روپے ماہانہ تک تھیں جس سے مولانا حضرات بہت خوش ہو گئے۔ اب گورنر نے اگلی چال چلی۔ مولانا حضرات کو بتایا گیا کہ آپ کا اسلام خطرے میں ہے اور ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے آپ کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا پڑیگا۔ مولانا حضرات کو تفصیل بتائی گئی کہ ہم انگریز اہل کتاب ہیں اور اسلام کے مطابق اہل کتاب سے رشتہ داری بھی ہو سکتی ہے اور جنگی تعاون بھی۔ مزید یہ کہ ہم لوگ مسلمانوں کے خلاف بھی نہیں بلکہ انہیں ہر قسم کی مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔ اب روس ادھر آرہا ہے وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں مانتا۔ تو یہ بات مولانا حضرات نے قبول کر لی۔ صوبے میں امن و امان قائم ہو گیا۔ پوری جنگ میں پٹھانوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ جب جرمن روس کی طرف بڑھے اور وہ بھی عیسائی تھے تو پھر بھی پٹھانوں کی وفاداریاں انگریزوں کے ساتھ رہیں۔ یہ تھا مولانا حضرات کا کمال۔
مولانا حضرات نے سب سے زیادہ کمال بنگلہ دیش میں دکھایا ہے۔ آج کل پوری دنیا میں سب سے اہم مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس وجہ سے وسائل روز بروز کم ہو رہے ہیں۔ بھوک اور غربت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ بہت سے ممالک محض آبادی کی وجہ سے غربت اور بیروز گاری میں پس رہے ہیں۔ پاکستان کو اس مسئلے کا احساس مرحوم ایوب خان کے دورِ حکومت میں ہوا لہٰذا مرحوم صدر نے آبادی پر کنٹرول کیلئے فیملی پلاننگ کا منصوبہ شروع کیا جس پر کروڑوں روپے خر چ کئے گئے ۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اسکی واحد وجہ ہمارے علماء کرام خصوصاً مساجد کے امام حضرات تھے جنہوں نے یہ منصوبہ اس بنا پر حرام قرار دے دیا کہ انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کا کام ہے رزق دینے والا بھی وہی ہے۔ تو حکومت کون ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو روکنے والی۔ تو یوں یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا۔الٹا ایوب خان کیخلاف نفرت پھیلی۔جن جن کاروائیوں کی علماء کرام نے مخالفت کی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئیں لیکن جن جن منصوبوں کی علماء کرام نے فیور کی ہے وہ ہمیشہ کا میاب ہوئے ہیں۔انکی انگلیاں ہمیشہ عوام کی نبض پر رہتی ہیں۔ عوام کسی بھی سیاسی لیڈر سے زیادہ انکے حلقہ اثر میں رہتے ہیں۔انکی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو پاکستان کی کل آبادی ساڑھے چھ کروڑ تھی۔مغربی پاکستان کی تین کروڑ اور مشرقی پاکستان کی ساڑھے تین کروڑ۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان علیحدٰہ ہوا تو پاکستان کی اندازاً آبادی 13کروڑ تھی۔6کروڑ مغربی پاکستان اور7 کروڑ مشرقی پاکستان۔بنگالیوں پر ہمیشہ یہ الزام لگتا تھا کہ انکے بچے زیادہ ہوتے ہیں۔پاکستان سے علیحدگی کے بعد سب سے پہلا کام بنگلہ دیش نے آبادی پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کی۔ایوب خان مرحوم کی ناکامی سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے یہ سارا منصوبہ علماء کرام کو سونپ دیا۔یہاں ہر حکومت نے آبادی کنٹرول کی منصوبہ بندی کی۔اربوں روپے خرچ ہوئے مگر بے سود۔ بنگلہ دیش میں علما ء کرام نے شاندار کام کیا۔آج پاکستان کی آبادی ساڑھے بائیس کروڑ ہے اور بنگلہ دیش کی16کروڑ ۔احساس ہونا چاہیے کہ مسلمان معاشرے میں خصوصاً پاکستان میں علماء کرام ایک بہت بڑی طاقت ہیں۔ اگر ان کی مدد حاصل کی جائے تو ہم شاندار نتائج حاصل کر سکتے ہیں مثلاً فیملی پلاننگ ،شادی بیاہ کی فضول رسمیں ،ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ، مہنگائی ،کم ناپ تول، معاشرتی بے راہ روی،تعلیمی پراگریس ،کرپشن اور سینکڑوں دوسری معاشرتی برائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے اور سب سے اہم مذہبی ،لسانی ،صوبائی اور بھارتی دخل اندازی وغیرہ آسانی سے ختم کی جا سکتی ہیں۔