وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں انٹرا افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے تعمیری کردار جاری رکھے گا۔ ہمارا کوئی فریق فیورٹ نہیں۔ تشدد اور مفاہمت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کو افغانستان میں تمام برائیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیس انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ’’پاکستان ۔ افغانستان دوطرفہ مذاکرات‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
امریکہ نے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے اُن طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے امن معاہدہ کیا جِسے اس نے دہشتگرد قرار دیا۔ طالبان اور امریکہ دو انتہائوں پر تھے۔ پاکستان نے دونوں کو براہِ راست مذاکرات پر آمادہ کیااور فریقین امن معاہدے پر متفق ہو گئے۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا اس حوالے سے خصوصی کردار تھا۔ امن معاہدے کی مخالفت افغان انتظامیہ کی طرف سے کی گئی۔ اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت نے پہلے مذاکرات اور پھر اس معاہدے کی سخت مخالفت کی۔ یہ لوگ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے حامی اور اس کے لیے تگ و دو بھی کر رہے ہیں۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے زلمے کو وائسرائے قرار دیا اور اب افغانستان میں امن عمل کے لیے کوشاں پاکستان کے خلاف زبان درازی کی۔ اس پر پاکستان کی طرف سے شدید ردّعمل کا اظہار کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ الزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغان مسئلہ سیاسی ہے جو مذاکرات ہی سے حل ہو سکتا ہے۔ امریکہ کو آج افغانستان سے بحفاظت نکلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ اگر افغانستان میں صحیح معنوں میں بحالی امن کا خواہش مند ہے تو اسے بھارت کے زیر اثر افغان حکمرانوں کی سازشوں سے خبردار رہنا ہو گا۔