عصبیت

Jun 16, 2021

حنیف رامے کا نوشتہ پنجاب کا مقدمہ  میں نے اوائل جوانی میں پڑھا تھا حنیف رامے مرحوم  ادیب دانشور اور صحافی سیاستدان تھے وہ بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے میں نے پنجاب کے مقدمے   کو ان کے نظریاتی تناظر  میں ہی سمجھا، میرے علم کی حد تک غالبا'' یہ پنجاب ازم پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے   جس میں  پنجابی قومیت کے جن کو ایک طاقتور دیو بنانے کی کوشش کی گئی  نیز اس میں  ایسا  ایندھن فراہم کیا گیا ہے جس کی مدد سے پنجابی عصبیت کی آگ کو جسد پاکستان کو جلانے کی نا پاک کوشش میں استعمال کیا جا سکتا ہے جنرل محمد ضیاء الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد  جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس کے مقابلے میں پنجاب ازم کی جو آوازیں اٹھیں ان کے لیئے اسی کتاب اور صاحب کتاب کی سوچ نیکمک فراہم کی  تھی،یہ پہلا موقع تھا جب سیاسی ضرورت کے تحت پاکستان کی خالق جماعت کی صفوں سے  ''جاگ پنجابی جاگ'' قسم کے نعرے بلند ہوئے جو نظریہ پاکستان سے بلکل متضاداور قائداعظم کے فرامین اور مسلم قومیت کے فلسفے کے منافی  تھے،بعد میں ایک موقعے پر انڈین پنجاب کے دورے کے دوران  وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف صاحب نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا جو نظریہ پاکستان پر ایمان رکھنے والوں  کے لیئے حیران کن تھا ایک ذمہ دار شخص کے ان خیالات کے پیچھے کیا صرف  دوستی اور خیر سگالی کے مقاصد تھے یا کوئی مجبوری تھی مجھے نہیں معلوم.آجکل1947 میں   انڈیا بلخصوص پنجاب کے  بٹوارے کے حوالے سے بہت سارے یو ٹیوب  چینلز کھمبیوں کی طرح اگ آئے  ہیں ان پر پیش کیے جانے والے بیشتر انٹرویوز سننے کے بعد احساس ہو تا ہے کہ دھیرے دھیرے د و قومی نظریہ  جو قیام پاکستان کی بنیاد تھاکو پنجابی قومیت کے ڈائنامیٹ سے تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان انٹرویوز میں  اینکر حضرات کی  تان عام طور پر اس فقرے پر ٹوٹتی ہے کہ ہم ایک تھے پھر نفرت کی آگ نے(کون سی نفرت کبھی نہیں واضح کی گئی) ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ بالخصوص انڈین پنجاب کے اینکرتو دوبارہ ایک ہونے پر  بھی زور دیتے ہیں۔
میں ان انٹر ویوز اوروڈیوز کو بہت غور سے  سنتا اوردیکھتا ہوں مجھے اس بات سے  اتفاق ہے کہ بٹوارے کے وقت دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئیں  اوردونوں طرف کے معصوم عوام کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا جو نہیں ہونا چائیے تھا اور پر امن نقل مکانی ہوجاتی تو دونوں ملکوں کے عوام میں نہ نفرت ہوتی اور نہ ہی  وہ انسانی المیے جنم لیتے جن پر انسانیت شرمسار ہے۔جہاں تک بٹوارے کا تعلق ہے میرا نقطہ نظر وہی ہے جو اس وقت  مسلمانوں کی اکثریت اور مسلم لیگ کا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ ملت ہیں جن کے لیئے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے جہاں وہ آزادی سے اپنے دین کے اصولوں کے مطابق معاشرہ تعمیر کر سکیں،اس سیدھی سی بات کو جب تسلیم بھی کر لیا گیا اور دو الگ ملک بھی بن گئے اور دونوں کو جدا کرنے والی لکیر (بارڈر) بھی وجود میں آگئی جو بین الااقوامی قوانین کے مطابق ہے اور جس کی تشکیل کے بعد  دونوں جانب کے مسلم اور نان مسلم  ترک سکونت بھی کر چکے ہیں  اور ترک سکونت کرتے وقت ایک دوسرے سے گلے مل کر پرامن جدا ہونے کی بجائے ایک انتہائی ناخوشگوار قتل و غارت،لوٹ مار،عصمت دری جیسے غیر آ آنسانی رویوں کا بھی شکار ہو چکے تو اب دوبارہ گڑھے مردے اکھاڑ کر دوبارہ ایک ہو نے کی خواہش لوگوں میں پیدا کرنا کیا  معقول  رویہ ہے؟کیا 14 اگست 1947 میں دونوں پنجابوں کا رہن سہن،زبان اور کھانے پینے کی ڈشزمختلف تھیں؟اگر نہیں تو پارٹیشن کیوں ہوا اور اتنی قتل و غارتگری کیوں ہوئی؟ ایک پنجاب کی لہر اٹھانے والوں کے پاس اس بات کا جواب ہے  کہ  اختلاف مذہب کی وجہ سے ایک دوسرے کو نہیں مارا اور لوٹا گیا؟ کیا پنجابی ووٹ کیذریعے اپنے فیصلے کا اظہار نہیں کر چکے؟ اس لکیر کو باہمی اتفاق سے نہیں بنایا گیا یقیننا'' اس میں طرفین کا اتفاق رائے تھا  جو لکیر دونوں ملکوں کو جدا کرتی ہے وہ انسانی خون سے کھینچی گئی ہے اور اس لکیر کو مٹانے کی کوئی بھی کوشش  دونوں طرف کے پنجاب اور انڈیا اور پاکستان کو   کو ملبے اور راکھ کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دے گی،معقول رویہ یہی ہے کہ اس لکیر کا احترام قائم رکھتے ہوئے دونوں طرف کے عوام اور حکومتیں نفرتوں کی بجائے محبت اور احترام کرنے والے ہمسائے بنیں اور باہمی تنازعات کو جن میں بنیادی مسئلہ جموں اور کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادی اور استصواب رائے کا ہے کا احترام کریں۔اور یہ پنجابی،پختون،سندھی اور بلوچی لہریں اٹھا نے والے بھی پاکستانی بن کر سوچیں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اپنی اٹھائی ہوئی لہروں کی نظر ہو جائیں اور نبی رحمت  ﷺ کے اس فرمان مبارک کے مطابق انجام سے دوچار ہوں جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جو عصبیت کی دعوت دیتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو گدھے کی دم پکڑے ہو اور گدھا ایک اندھے کنوئیں کی طرف بھاگا جا رہا ہو اور وہ گدھے کی دم پکڑے رکھے یہاں تک کہ گدھے کے ساتھ اس کنوئیں میں جاگرے۔۔ ۔۔۔پاکستان میں صوبائی عصبیت کے اسیروں سے اتنی سی گزارش ہے کہ خدا را گدھے کی دم پکڑنے والے نہ بنیں اور پاکستان کی بنیاد اسلامی نطریے کو چھوڑ کر نسلی اور علاقائی عصبیتوں کو ہوا نہ دیں اورمسائل کو عصبیت کا تڑکا نہ لگائیں ان کا حل کھلے دل و دماغ سے پاکستانی بن کر سوچیں۔ میں بلخصوص پنجابی عصبیت کو ہوا دینے والوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ  چھوٹے صوبوں کے بھائیوں کی شکایات کو بڑے بھائی کی طرح سنیں اور محبت سے انکو دور کرنے کی کوشش کریں نہ کہ خود عصبیت کا شکار ہو جائیں ،ہمارا ملک جو قائد اعظم رح ہمارے لیئے چھوڑ کر گئے تھے اسی وجہ سے دولخت ہوا کہ بڑا بھائی مشرقی پاکستان عصبیت کا شکار ہوا اب خدا را پنجابی رہنماوں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے دانشوروں اور سیاستدانوں والا لائحہ عمل اختیار نہ کریں کہ جس کے نتیجے میں ملک پاکستان کو خاکم بدہن نقصان پہنچے ایسا ہونے کی صورت میں پنجاب تو متحد نہیں ہو سکے گا جیسا کہ بنگال متحد نہیں ہوا لیکن 1947 سے بڑا انسانی المیہ ضرور جنم لے گا۔

مزیدخبریں