جب سے جنوبی پنجاب کے خطے پر حکومتی نظر التفات کے موسم وا ہوئے ہیں حکومتی ترجمانوں کی طرف سے بھی گاہے بگاہے آنا جانا لگا رہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ملتان کے مختصر دورے کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے ضلع لیہ میں بھی کئی اہم ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا والوں کاگلہ شکوہ دور کرنے کیلئے وزیراعظم آفس اور محکمہ تعلقات عامہ کی طرف سے راقم سمیت متعدد سینئر کالم نگاروں کو لیہ میں وزیراعظم کی تقریب کیلئے مدعو بھی کیا گیا اور وزیراعظم نے اخبارات کے مدیران اور سینئر کالم نگاروں سے ڈائیلاگ کا اہتمام بھی کیا یقینا اسے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ میڈیا اور حکومت کے ارباب اقتدار کے درمیان براہ راست مکالمے اور ڈائیلاگ کی وجہ سے بہت سے مسائل کی نہ صرف نشاندہی ہو سکتی ہے بلکہ بہت سی الجھنوں کو سلجھایا بھی جا سکتا ہے کیونکہ ؎
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
سو اسی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف حکومتی ترجمان اپنا حق ترجمانی ادا کرتے رہتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کی ترجمان برائے اطلاعات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان خاصی دھڑلے والی اور ہر خبر پر نظر رکھنے والی باخبر ترجمان ہیں نے بھی ملتان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ایک گپ شپ سیشن میں دل کھول کر باتیں کیں اور شرکا کی تجاویز بھی سنیں اگرچہ ایسے سیشن میں اکثر صورتحال سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے والی ہوتی ہے بہرحال انہوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے دوروں میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کی شرکت کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے صوبے کے لیے مشاورت کی فوری ضرورت کو بھی تسلیم کیا۔ اس موقع پر راقم نے انہیں تجویز پیش کی کہ جنوبی پنجاب کے صوبہ کے قیام اور اس خطے کے دیگر مسائل کے لیے اساتذہ، اہل قلم کالم نگاروں صحافیوں اورمختلف مکاتب فکر کے ماہرین اور دانشوروں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک یا مشاورتی فورم تشکیل دیا جائے جو نہ صرف حکومت کے اچھے اقدامات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کی تشہیر بھی کرے بلکہ مسائل کی بروقت نشاندہی بھی ممکن ہو سکے اور غلط پالیسیوں پر مثبت تنقید کا فریضہ بھی ادا کرے حکومتی ترجمان نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اطلاعات کے پارلیمانی سیکرٹری اور رکن صوبائی اسمبلی محترم ندیم قریشی کو اس حوالے سے ذمہ داری بھی سونپی ہے دیکھیں اب اس سلسلے میں کب پیش رفت ہوتی ہے ماضی میں سابق صدر زرداری نے بھی وزیراعظم اور دوسرے عہدے جنوبی پنجاب کو دینے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ کے قیام کیلئے مزید اقدامات سے گریز ہی کیا صحافیوں اور کالم نگاروں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کا جو وعدہ کیا وہ بھی ایفا نہ ہو سکا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو الگ صوبہ کے قیام کی قرارداد الیکشن سے پہلے لانی چاہیے بصورت دیگر یہ الیکشن کا نعرہ ہی قرار پائے گی ویسے بھی الگ صوبہ کی قرارداد کو اسمبلی سے پاس کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا دراصل یہی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کا امتحان بھی ہے کہ عوام کا ہمدرد اور انکے حقوق کا اصل ترجمان کون ہے۔ دیگرحکومتی ترجمانوں میں سے اس وقت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ خاصی اِن ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جوڈو کراٹے اور باکسنگ میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔اپوزیشن پر لفظوں کی خوب بمباری کرتی ہیں انہیں جملوں کا برمحل استعمال بھی آتا ہے اور وہ اس بات پر بھی یقین رکھتی ہیں کہ جملہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال حکومتی ترجمانوں کو حکومت کے کارنامے بیان کرنے کیساتھ ساتھ تحمل اور برداشت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے اور صبر کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے حکومت یا ان کی ذات پر تنقید کا مؤثر اور درست فورم پر جواب ضرور دینا چاہیے یوں بھی آج کل مختلف چینل اپنی ریٹنگ اور سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کیلئے شرکائے گفتگو کا پارہ چڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں سو سیاسی اختلاف رائے کو دلائل کے ساتھ خوش گفتاری کے ساتھ بھی پیش اور قبول کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے ان ترجمانوں کو دریا کی جنوں خیز موجوں کی طغیانی اور اضطراب کی بجائے سمندر کی طرح پرسکون ہونا چاہیے کیونکہ اقتدار کا حصول اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا اقتدار کو بچانا اور اس کو قائم رکھنا ہے۔
٭…٭…٭
حکومتی ترجمان سے گپ شپ
Jun 16, 2021