پسِ جدیدیت (لہجے اور اسلوب) 

اکرم کنجاہی سینئر بینکار ہیں۔ بینکنگ خشک کام ہے۔ ادب میں بھی انھوں نے خشک اور نسبتاََ مشکل کام میں ہاتھ ڈالا ہے یعنی تحقیق و تنقید۔ گزشتہ چند برسوں سے تنقید و تحقیق پر ان کا ہاتھ رواں ہے۔ حال ہی میں ان کی تنقیدو تحقیق پر ساتویں کتاب ’’پسِ جدیدیت‘‘ (لہجے اور اسلوب) لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ قبل ازیں انکی کتابیں کراچی کے ایک پبلشر نے شائع کیں۔ اکرم کنجاہی پنجاب کے ایک چھوٹے قصبہ کنجاہ میں پیدا ہوئے اور اب مستقل قیام سندھ کے بڑے شہر کراچی میں ہے۔ اپنے پیدائشی قصبے کو انھوں نے اپنے نام کا حصہ بنایا۔ اکرم بٹ کے بجائے ’’اکرم کنجاہی‘‘ کہلانا پسند کیا۔ ’’پس جدیدیت‘‘ کا انتساب منفرد ہے۔ ’’سائیں تغڑی کے نام‘‘ دو صفحات پر مشتمل یہ انتساب انکا قصبہ کنجاہ کے ایک ’’سائیں‘‘ کے حوالے سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جس گلی میں میرا آبائی گھر تھا اسکے سامنے ایک بڑے میدان میں کہن سال پیپل کے گھنے پیڑ کے نیچے بلدیہ کنجاہ کی محصول چونگی غربی ہوا کرتی تھی۔ محلے کے سارے لڑکے محصول چونگی پر پیپل کی چھاؤںمیں گپیں ہانکتے رہتے تھے۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ ادھیڑ عمر شخص وہیں نوجوان لڑکوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ اسکی نظر کے اپنے جمالیاتی معیارات تھے۔ وہ اس لڑکے کی تغڑی(تحفہ) قبول کرتا جو ان معیارات پر پورا اترتا۔ میرے بچپن کے اس کردار کی جو چیز ہمیشہ یاد رہتی ہے، وہ محبت کے اسلوب میں اسکی وارفتگی تھی۔ میں اپنی اس کتاب کا انتساب اس محبت افروز شخص کے نام کرتا ہوں‘‘ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول، فکری مباحث۔ حصہ دوم، مضامین (نثریات) حصہ سوئم، مضامین (شعریات) 
کتاب میں زیادہ دیباچے ہیں جو اکرم کنجاہی نے بعض شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر لکھے۔ بعض ایسے بھی کتاب میں شامل ہیںجو شاعروں اور ادیبوں کی فرمائش پر لکھے گئے مگر انکی کتابیں تاحال شائع نہیں ہوئیں۔ ابتدائیہ پروفیسر ڈاکٹر شفیق آصف کا تحریر کردہ ہے۔ وہ لکھتے ہیںکہ ’’محمد اکرم کنجاہی کی پس جدیدیت کے ضمن میں کی گئیں تشریحات اس لیے منفرد اور جداگانہ کاوش ہیں کہ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف کے وسیع مطالعے کے بعد اس کتاب کو تحریر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ اکرم کنجاہی نے اپنی کتا ب میں جدیدیت کی اصطلاح کی روشنی میں مختلف ادبی اصناف اور کتب کا جائزہ بھی لیا ہے۔ حصہ اول میں پسِ جدیدیت کے حوالے سے ان کی فکری بحث بہت اہم ہے۔ اسی طرح وہ معاصر تحقیق و تنقید کا جائزہ پسِ جدید فکشن کے رجحانات، مزاح نگاری کی صورتحال، پس جدیدیت غزل کی بوقلمونی، نظم نگاری کا منظر نامہ اور ہائیکو کے امکانات بھی اسی تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں۔ حصہ دوم میں چھ مضامین شامل ہیں جبکہ مضامین شعریات میں دلاور علی آذر، فہیم شناس کاظمی، امر روحانی، کاشف حسین غائر، کامی شاہ، شبیر نازش، رفیق محل، نوید فداستی، شجاع الزماں شاد، شاداب صدیقی اور انیس جعفری جیسے اہم شعراء کی شعری میلانات کو پس جدیدیت کے آئینے میں دیکھا گیا ہے۔ اکرم کنجاہی کے پس جدیدیت کے تناظر میں کیے مطالعات اور فکری بحث لمحہ موجود کے ادبی منظر نامے میں یقینا ایک اہم تنقیدی کاوش ہے‘‘ 
ڈاکٹر شفیق آصف نے کتاب کا نچوڑ اس پیراگراف میں بیان کر دیا ہے۔ قبل ازیں تحقیق و تنقید پر اکرم کنجاہی کی یہ تصانیف شائع ہو چکی ھیں۔ راغب مراد آبادی (چند جہتیں) نسائی ادب و تانشیت، لفظ، زبان اور ادب، غزل کہانی، مابعد جدیدیت اور معاصر متغرلین، محاسن فکروفن۔ اکرم کنجاہی کے چار شعری مجموعے بھی چھپ چکے ہیں جن کے نام ہیں۔ ہجر کی چتا، بگولے رقص کرتے ہیں، محبت زمانہ ساز نہیں اور دامن صدچاک۔ آخر میں کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر دوست ظفر رباب کی تازہ غزل:۔؎ 
کس کس پہ مسیحا کی توجہ رہے مبذول 
سانسوں کا اکھڑنا ہوا اب روز کامعمول 
سینے میں پنپتی کوئی خواہش بھلا کیسے 
کھلتے نہیں صحرائے لق و دق میں کبھی پھول 
کھا لیتا وہ آرام سے دو وقت کی روٹی 
مزدور کی تنخواہ جو ہوتی ذرا معقول 
بچے مرے ہو جائیں شکم سیر کسی روز 
تاعمر اسی شغل نے رکھا مجھے مشغول 
کھیتوں میں ہوا دھول مرے جسم کا سونا 
اور لے گئے زردار مری فصل کا محصول 
یادوں کے دریچوں پہ ہو جب بھی کبھی رم جھم 
دھل جاتی ہے آئینہ ہستی پہ جمی دھول 
دل میں جو مکیں تھے وہ ربابؔ آج کہاں ہیں 
پیغام ہی آئے نہ خبر ہو کوئی موصول 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن