چائلڈ لیبر کے خاتمے کے اعلانات پر عمل کی ضرورت 

Jun 16, 2021

مکرمی! ہمارے معاشرے میں تمام تر حکومتی اعلانات اور اقدامات کے باوجود چائلڈ لیبر (بچوں سے جبری مشقت) ختم نہیں ہو سکی۔ تمام این جی اوز اور اشرافیہ اسی لعنت میں گرفتار ہے۔ بڑی بڑی بیگمات کے گھروں میں بچے اور بچیاں دن رات چوبیس گھنٹے غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہیں معمولی جھوٹی غذا، پرانے اترن والے کپڑے دئیے جاتے ہیں۔ جوتے پہن کر گھر میں کام کی اجازت نہیں ۔ باہر پرانی چپل پہنا کر بھیجا جاتا ہے۔ ان کے بال تک کاٹے جاتے ہیں تاکہ برتنوں میں کھانے پینے کی چیزوں میں نہ گریں۔ یہ بچے اس عمر میں ان امرا کے بچوں کو بھی سنبھالتے ہیں حالانکہ یہ ان کے اپنے کھیلنے کودنے لکھنے پڑھنے کی عمر ہوتی ہے۔ یہ پیسے والے لوگ ان کے ماں باپ کو جو ظاہر ہے غریب اور مجبور ہوتے ہیں ہر ماہ چند ہزار روپے تھما دیتے ہیں۔ ان کم سن غلاموں کے لیے نہ تو چھٹی ہوتی ہے نہ گھر جانے اور نہ ہی والدین سے ملنے کی اجازت۔ نہ انہیں بیماری کی صورت میں علاج معالجہ ملتا ہے نہ دوا اور نہ موسم کے لحاظ سے کپڑے اور کھانا ۔ یہ دن بھر کام کاج کے بعد رات کو باورچی خانے یا ٹھنڈے یا گرم فرش پر ہی چادر بچھا کر سوتے اور اپنی قسمت کو روتے ہیں۔ کوئی حکومتی ادارہ ان کا حساب کتاب نہیں رکھتا۔ ان کے اعداد و شمار جمع نہیں کرتا۔ حالانکہ قانون میں ان کم سن غلاموں کے حقوق درج ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ 14 سال سے کم عمر بچے کو ملازم رکھا نہیں جا سکتا۔ یہی حالت دکانوں، گیراجوں ، ورکشاپوں ، عام فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی بھی ہے۔ جہاں یہ کم عمر بچے بدترین حالات میں محنت مشقت کرتے ہیں۔ انہیں ذرا ذرا سی بات پر گھریلو ملازمین کی طرح بدترین اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کو تنخواہ کے نام پر معمولی رقم دے کر ٹرخایا جاتا ہے۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملکی و عالمی قوانین کے تحت ان تمام ملازم بچوں کو رجسٹر کرے۔ ان کے اوقات کار مقرر کرے۔ ان کی تنخواہ اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے اور چھٹیوں کے متعلق تمام قوانین پر عمل کرائے۔ اس بارے میں کسی کو کوئی رعایت نہ دی جائے تاکہ پتہ چلے کہ پاکستان میں کتنے بچے بطور چائلڈ لیبر کام کرتے ہیں اور انہیں کیا کیا مسائل درپیش ہے۔ یوں ان کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔  (آویز نبی) 

مزیدخبریں