میاں غفار احمد
جولائی کے تیسرے ہفتے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا انتخابی معرکہ ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 217 میں ہونے جا رہا ہے اور اس الیکشن میں کامیاب ہونے والا ہی حقیقی معنوں میں ملتان کا سلطان کہلائے گا۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس حلقے میں کامیابی کو بلاوجہ ہی اپنی انا اور سیاسی بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے حالانکہ اگر وہ ذاتیات کے حصار سے باہر نکل کر کسی پارٹی ورکر کو انتخابی میدان میں اتارتے تو وہ سلمان نعیم کا وفادار یاں تبدیل کرنے کے بعد سیاسی وزن درست طور پر ماپ سکتے تھے مگر انہوں نے شاید طے کر رکھا ہے کہ سلمان نعیم کو ہر حال ٹارگٹ کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کم عمر اور سیاسی نووارد شیخ سلمان نعیم نے مخدوم شاہ محمود قریشی کو اس وقت شکست دی جب وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا تھے اب امریکی خط والے کھیل کے بعد تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا سراب بن چکے ہیں اور شاید یہ پہلا الیکشن ہو گا جس میں کئی نسلوں سے ان کا ساتھ دینے والی قوتیں ان کے ساتھ نہیں ہوں گی۔
سلمان نعیم کے والد شیخ نعیم کاروباری آدمی ہے اور ان کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا مگر انہوں نے جرات سے پہلے ہی الیکشن میں اپنے بیٹے کو انڈر 19 سے ہیوی ویٹ بنا ڈالا۔ شیخ نعیم بلا کے دلیر اور مقابلہ کرنے کے فن سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اس حلقے میں اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی بیٹے کو صوبائی سیٹ پر الیکشن میں اتار کر بہت سے پارٹی ورکروں کے امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے جو امید رکھے ہوئے تھے کہ شاید اس بار ان کے نام کی فال نکل آئے، اب وہ بھی دل سے پی ٹی آئی کے امیدوار کا ساتھ ابھی تک تو نہیں دے رہے،کیونکہ اس بار حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہونے جا رہا ہے ۔
ضلع لودھراں کے دو صوبائی حلقوں میں اصل امتحان وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمن خان کانجو کا ہے جو سالہا سال سے جس بھی انتخابی گھوڑے پر ہاتھ پھیرتے وہ ہی جیت جاتا تھا۔ اس مرتبہ دنیا پور والے حلقے پی پی 224 میں لوٹا بننے والے زوار حسین وڑائچ (ن) لیگ کے امیدوار ہیں اور انہی لوگوں سے ووٹ مانگنے جا رہے ہیں جن کے خلاف تین سال تک وہ جھوٹے مقدمات درج کراتے اور انہیں اذیت دیتے رہے۔ معلوم نہیں کہ کس "حوصلے" سے وہ ان مسلم لیگیوں کے گھروں میں جا رہے ہیں جن پر انہوں نے دوران اقتدار زندگی تنگ کیے رکھی۔ زوار وڑائچ کا مقابلہ پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ سے ہے جبکہ سابق رکن اسمبلی ملک طیب اعوان مرحوم کے بیٹے ملک اسلم اعوان آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہاں ابھی تک تو پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ کا پلڑا بھاری ہے اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس حلقے میں 8 یونین کونسلز عبدالرحمن کانجو کی ہیں جہاں انہیں پہلی مرتبہ الجھاؤ کا سامنا ہے جبکہ رات گئے سابق ایم این اے و پیپلزپارٹی کے رہنما نواب حیات خان ترین بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ لودھراں میں گیلے وال حلقے میں بھی امیدواروں کی تکون پارٹی ، پالیسی کی دھجیاں اڑا رہی ہے، یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار کیپٹن (ر) عزت جاوید اور ن لیگ کے امیدوار نذیر بلوچ جبکہ سابق ایم پی اے پیر رفیع الدین شاہ آزاد امیدوار کے طورپر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نذیر بلوچ اور صدیق بلوچ گروپوں میں سخت مخالفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیگی ایم پی اے صدیق بلوچ کا بیٹا کھل کر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف پیر رفیع الدین شاہ کی سپورٹ کر رہا ہے اس حلقے سے بھی وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمن کانجو کے گروپ کے زیادہ لوگ پیر رفیع الدین شاہ کی سپورٹ میں کھڑے ہیں۔ یہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
چوک اعظم چوبارہ ضلع لیہ کے حلقہ پی پی 282 میں بھی تین مضبوط امیدوار میدان ہیں۔ طاہر رندھاوا آزاد تھے، پہلے پی ٹی آئی اور پھر وفاداریاں بدل کر ن لیگ میں شامل ہوئے اور ٹکٹ کے حقدار قرار پائے۔ قیصر مگسی سابق ایم پی اے اور پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جبکہ گزشتہ الیکشن میں 26 ہزار ووٹ لینے والے ملک ریاض گرواں بھی انتخابی میدان میں ہیں۔یہاں ابھی تک طاہر رندھاوا کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ صاحبزادہ فیض الحسن اور بہادر خان سیہڑ جو کہ دونوں سابق ایم این اے ہیں حکومتی اتحاد کی وجہ سے طاہر رندھاوا کی سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ لیہ سے ثقلین شاہ بخاری بھی طاہر رندھاوا کی مدد کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کیلئے تفریح قرار پانے والا کرکٹ کا کھیل چھ دن تک ملتان کے شہریوں کیلئے عذاب بنا رہا، پولیس نے بدتمیزی کے وہ ریکارڈ قائم کئے کہ بیان سے باہر ہیں۔سٹیڈیم میں کرکٹ میچ کی وجہ سے نجی ہسپتالوں سے میتیں بھی باہر نہ لائی جا سکیں اور نہ ہی فوری طبی امداد کے مریضوں سمیت کوئی بھی مریض ابدالی روڈ پر واقع نجی ہسپتال میں آ جا سکا۔ ابدالی روڈ سے لے کر سٹیڈیم تک پولیس نے کرفیو کا سماں باندھے رکھا ،شہری مصیبت میں مبتلا رہے۔اس دوران اخبارات کی ترسیل بھی نہ ہو سکی۔مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ صلح جو ہیں۔لاہور سیکرٹریٹ کے کمروں میں بند بکریاں بھی اس خطے کے لوگوں کی شرافت کی وجہ سے شیر بن جاتی ہیں اور تبادلے کے احکامات ملتے ہی شیر کی مصنوعی کھال آنے والے کے لئے اتار کر چلتے بنتی ہیں۔ چنانچہ اب اس خطے کے باسیوں کو بھی جی حضوری کے روایتی کلچر سے نکلنا ہو گا جس کا سالہا سال سے منفی تاثر پیدا ہو رہا ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛