آرمی چیف کے دورۂ چین کے تناظر میں ترجمان پاک فوج کا دوٹوک بیانیہ

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے چیف آف آرمی سٹاف کے حالیہ دورۂ چین کو قومی سلامتی کے مفادات کے حوالے سے دوررس نتائج کا حامل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جو برادر ملک چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر چین گئے اور ان سے ملاقات کی۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ سٹرٹیجک اور برادرانہ تعلقات انتہائی اہم ہیں‘ چین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا۔ انکے بقول آرمی چیف کے دورے کا مقصد دفاعی سمیت تمام تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔ چین نے پاکستان کی دفاعی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ سی پیک کی سکیورٹی فوج کو دی گئی ہے۔ اسکی سکیورٹی میں کسی قسم کی کمی نہیں رہنے دی گئی۔ حکومتی سطح پر سی پیک پر کام ہورہا ہے اور اسکی سکیورٹی پر خصوصی کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ رابطوں میں پیش رفت ہورہی ہے۔ سپہ سالار کے دورۂ چین کے دوران متعدد میمورنڈمز پر دستخط ہوئے ہیں۔ 
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ حقائق کو مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں‘ پچھلے کچھ عرصے سے افواج اور اسکی لیڈر شپ کو پراپیگنڈے کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اپنی رائے کا سب کو حق ہے مگر جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں کسی نے اس وقت کی حکومت کیخلاف بیرونی سازش ہونے کا نہیں کہا۔ کمیٹی کی دونوں میٹنگز میں تینوں سروسز چیف موجود تھے۔ میٹنگ کے شرکاء کو ایجنسیز کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ہیں۔ ان میٹنگز میں مفصل انداز میں بتایا گیا کہ سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ انکے بقول سازش اداروں کیخلاف ہو رہی ہے۔ عسکری قیادت کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ افواج پاکستان ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے جذبے سے سرشار ہی نہیں‘ اسکی پوری استعداد اور صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت اور مشاقی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ اسی بنیاد پر افواج پاکستان کو اقوام متحدہ کے امن مشن میں اسکے مؤثر کردار کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیوں کے عوض اقوام عالم میں فساد‘ شرانگیزی‘ انتشار اور دہشت گردی کے تدارک کیلئے اپنی بے بہا خدمات سرانجام دی ہیں اور اس کا یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹریس خود متعدد مواقع پر اعتراف کر چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا چین کے صدر شی جنگ پنگ کی دعوت پر دورۂ چین پر جانا بھی درحقیقت علاقائی اور عالمی امن کی بحالی و قیام کیلئے افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت اور خداداد صلاحیتوں کا اعتراف ہے اور اس سے علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان چین تزویراتی اور دفاعی تعاون مزید مضبوط بنانے کا بھی ٹھوس عندیہ ملا ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا دفاع و سلامتی اوراس حوالے سے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات عساکر پاکستان کے حصار اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہیں اور اسی طرح پاکستان چین اقتصادی راہداری کا مشترکہ منصوبہ بھی دشمن کی تمام تر سازشوں کے باوجود محفوظ بھی ہے اور اپریشنل ہونے کی منزل کی جانب گامزن بھی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ اور بھارت کے ایماء پر ملک کے اندر جو بھی عناصر سی پیک کو روکنے کی سرگرمیوں میں ملوث رہے اور انہوں نے پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی مذموم کوشش کی‘ آرمی چیف کے حالیہ دورۂ چین سے انہیں مکمل ادراک ہو جانا چاہیے کہ پاک فوج سی پیک کے تحفظ کی ضامن ہے اس لئے سی پیک کیخلاف انکی کوئی سازش پنپ سکتی ہے نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ پاک فوج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دفاع وطن کے موجزن جذبے کی بنیاد پر ہی دشمن کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اس لئے ہماری سلامتی کے درپے اس دشمن کو ملک کا دفاع کمزور کرنے کیلئے افواج پاکستان پر کسی نہ کسی سازشی تھیوری کا اطلاق کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے اور بدقسمتی سے دشمن کی ان گھنائونی سازشوں کیلئے ہمارے بعض مفاد پرست اور علیحدگی پسند عناصر بھی آلۂ کار بنتے ہیں جبکہ اقتدار کی کشمکش میں ایک دوسرے کی ذاتی مخالفت پر اترے ہمارے بعض سیاست دان بھی دانستہ نادانستہ دشمن کی ان سازشوں پر اسکے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ تین ماہ قبل اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف انکی حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتیں سرگرم عمل ہوئیں اور انہوں نے وزیراعظم کیخلاف آئین کے تقاضوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو عمران خان نے ایسی ہی ایک سازشی تھیوری کا بیانیہ اپنا کر اپنے مخالف سیاست دانوں کے علاوہ ملک کے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کیخلاف ملک کی سلامتی کے تقاضوں کے باوصف ایک معاندانہ پراپیگنڈا کا آغاز کردیا اور جب یہ معاملہ حکومت کے اپنے طلب کردہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں زیرغور آیا تو وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا جہاں ایجنسیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر دوٹوک الفاظ میں باور کرایا گیا کہ حکومت کیخلاف کسی بیرونی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اسکے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت اپنی ڈھٹائی پر قائم رہتے ہوئے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کو مطعون کرنے کا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں ترجمان پاک فوج نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ سازش تو اداروں کیخلاف کی جارہی ہے جبکہ سابقہ حکومت کیخلاف کسی بیرونی سازش کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اسی طرح امریکہ کی جانب سے بھی پی ٹی آئی حکومت کیخلاف کسی سازش میں اسکے ملوث ہونے کی دوبارہ اور سختی سے تردید کی گئی ہے اور پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونالڈ بلوم نے گزشتہ روز باور کرایا ہے کہ کوئی امریکی عہدیدار پاکستان کی سابقہ حکومت کو تبدیل کرنے کے کسی اقدام میں ملوث نہیں۔ اس تناظر میں اداروں کیخلاف جاری ایسے پراپیگنڈا کے سختی سے سدباب کی ضرورت ہے جس سے دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنے کا موقع مل سکتا ہو۔ ملک کے دفاع اور سلامتی کیخلاف کسی کو کھل کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے نہ کوئی مفاہمت قبول ہو سکتی ہے۔ افواج پاکستان اور اسکی قیادتوں کیخلاف پراپیگنڈا ملک کا دفاع و سلامتی کمزور کرنے کی ہی سازش ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن