مجھے یہ واقعہ میری چھوٹی بہن نے حیرت سے کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس وقت سنایا جب ہماری فیملی عمرہ کی ادائیگی کے لئے خانہ کعبہ میں موجود تھی اس نے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ وہ طواف مکمل کر کے خانہ کعبہ کے دروازے کے سامنے بیٹھی ذکر اذکار کر رہی تھی کہ اس کے کانوں سے ایک زوردار آواز ٹکرائی۔اللہ میاں میں آ گئی آں فیصل آباد والی سکینہ۔ بس ہْن مینوں اپنا گھر اندروں دکھا دے۔ وہ بار بار باآواز بلند یہی جملے دہرا رہی تھی کہ اللہ پاک میں فیصل آباد والی سکینہ تمہارے در پر پہنچ گئی ہوں بس اب مجھے اپنا گھر اندر سے دکھا دے۔ اس نے پندرہ بیس مرتبہ جذب کی کیفیت میں اردگرد سے بے پرواہ ہو کر یہ جملے دہرائے ہوں گے کہ خانہ کعبہ کا دروازہ چند وی وی آئی پی حضرات کے لئے کھلا اور اردگرد سکیورٹی حصار لگ گیا تاکہ کوئی غیر متعلقہ شخص داخل نہ ہو سکے۔
اسی اثناء میں ایک شْرطہ (سعودیہ میں پولیس ملازم کو شْرطہ کہا جاتا ہے) اس عورت کی طرف آیا جو اپنا نام سکینہ پکار رہی تھی اور اس کو ساتھ لے کر رش کا حصار توڑتا ہوا خانہ کعبہ کے دروازے پر لے گیا وہ بھاگ کر سیڑھیاں چڑھی اور خانہ خدا کے اندر داخل ہو گئی۔ فیصل آباد والی سکینہ کون تھی۔ اس نے اللہ سے کیا کہہ رکھا تھا۔
عربی بولنے والا شْرطہ تو اس کی زبان بھی سمجھنے سے قاصر تھا پھر یہ سب کیا تھا۔ میری بہن نے یہ واقعہ ہم سب کو سنایا مگر ہم آج بھی سکینہ کا یہ مضبوط یقین والا نیٹ ورک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کے اسرار وہی جانے۔
میرے اتوار 12 جون کے کالم پر بہت سے دوستوں نے انتہائی خوبصورت تاثرات بیان شیئر کئے۔ ایک قاری اور مہربان حاجی عبدالغفار چاچڑ نے لکھا کہ وہ 20 سال سے زائد عرصہ حرم میں گزار چکے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ حاجی صاحب کتنے خوش نصیب ہیں۔ 20 سال اور وہ بھی حرم پاک میں، سبحان اللہانہوں نے لکھا کہ جتوئی ضلع مظفرگڑھ کے کچھ دوست عمرہ کرنے آتے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر کہتے حاجی صاحب آج فلاں چیز کھانے کو دل کر رہا ہے، ہم اکثر دیکھتے کہ تھوڑی ہی دیر میں وہی چیز کوئی نہ کوئی آ کر انہیں دے جاتا۔ ایک مرتبہ حاجی زوار حسین زرگر نے کہا کہ آج سموسے کھانے کو دل کر رہا ہے۔ ایک نامعلوم شخص آیا اور حاجی صاحب کے ہاتھ میں تین سموسے دے گیا حالانکہ وہاں سموسے مسجد نبوی کے اندر لانے بھی نہیں دیتے۔
ہم پاکستانی کتنے خوش قسمت ہیں مجھے یہ انکشاف بھی مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے باہر نکلتے ہوئے اس وقت ہوا جب برما کے ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ میں پاکستانی ہوں میرے اثبات میں سر ہلانے اور الحمد اللہ کہنے پر اس نے اگلا سوال کیا کہ کیا آپ کے سارے گھر والے مسلمان ہیں۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول رہا تھا اور چونکہ بھارت میں بھی رہا تھا اس لئے ہندی بھی اسے آتی تھی۔ مجھے اس کا سوال بہت عجیب لگا۔
میں نے بتایا کہ نہ صرف میرے والدین اور تمام بہن بھائی مسلمان ہیں بلکہ ہمارا تو سارے کا سارا خاندان اور رشتے دار بھی مسلمان ہیں۔ اس نے جواب دیا۔
Amazing.You are so much licky.
میرے لئے اس کے کمنٹس خاصے حیران کن تھے۔ میں نے پوچھا کہ وہ یہ سب کیوں پوچھ رہا ہے کہنے لگا کہ میرا والد مسلمان ہے جبکہ والدہ بدھ مت۔ ایک بھائی کرسچن بن گیا ہے اور ایک بہن نے ہندو سے شادی کر کے ہندو مذہب اختیار کر لیا ایک بہن نے ماں کا مذہب اپنا لیا جبکہ ایک بھائی مسلمان
ہے۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔والدہ چاہتی ہیں کہ میں بدھ مت اپنا لوں جبکہ والد مجھے مسلمان بنانا چاہتے ہیں میں نے ماں کے کہنے پر بدھ مت مذہب کی تعلیم لی پھر والد کے کہنے پر اسلام بارے معلومات بھی لیں۔ میں بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار تھا تو میرے والد نے کہا کہ تم عمرہ کر کے آو اور پہلے کلمہ پڑھ لو۔ والدہ بمشکل مانی تو میں نے نماز سیکھنے میں ایک سال لگایا پھر یہاں عمرہ کرنے چلا آیا اب یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ اصل دین تو اسلام ہی ہے اور اب میری کوشش ہے کہ میں والدہ اور کرسچئن بھائی کو بھی منا کر کلمہ پڑھا دوں اور ایک مرتبہ عمرہ پر لے آوں۔
اس کی باتیں سن کر میرا رواں رواں کھڑا ہو چکا تھا کہ مجھے اس کرب کا تصور بھی نہیں تھا جس میں سے وہ گزر رہا تھا۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد مسجد نبوی میں وہ بہت خوش تھا کہ اس نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ وہ مجھے دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا تھا کہ جس کا سارے کا سارا خاندان مسلمان ہے۔ مسجد نبوی کے داخلی دروازے کی سیڑھیوں پر ہم دیر تک بیٹھے رہے اور ان چند منٹوں میں مجھے اس نعمت اور انعام کا اندازہ ہوا کہ سارا خاندان مسلمان ہو تو کتنی بڑی نعمت کی بات ہے۔
اس سے قبل مجھے اس کا قطعی اندازہ ہی نہ تھا اور ویسے بھی میں نے اس قسم کی سیچوایشن پہلی مرتبہ ملاحظہ کی تھی
ہم پاکستانی اور اسلامی ممالک میں رہنے والے واقعی بہت خوش قسمت اور اللہ کے کرم و فضل یافتہ ہیں اگر اسی ایک فضل و کرم کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں ہر پل بھی پڑے رہیں تو بھی بہت کم ہے۔ اللہ پاک تیرا ہم پر کتنا کرم ہے جس کا ہم پاکستانیوں کو ادراک ہی نہیں۔