کراچی ( کامرس رپورٹر)ڈائریکٹر جنرل کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سید محمد علی شاہ نے کے ڈی اے اور کے سی سی آئی کے درمیان ایک کمیٹی بنانے کی کراچی چیمبر کی تجویز سے اتفاق کیاہے تاکہ تاجر برادری کو کے ڈی اے سے متعلق مسائل کو فوری طور پر حل کیا جاسکے۔انہوں نے یقین دلایا کہ وہ کراچی چیمبر کے نمائندے کو کے ڈی اے کی گورننگ باڈی میں شامل کرنے کی سفارش کریں گے جس میں اس وقت ممبران کو شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا (بذریعہ زوم)، صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، نائب صدر قاضی زاہد حسین، چیئرمین ہاؤسنگ، کنسٹرکشن اینڈ رئیل اسٹیٹ سب کمیٹی آصف سم سم، سابق صدر یونس بشیر ، کے سی سی آئی مینیجنگ کمیٹی کے اراکین کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹر سے وابستہ تاجروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈی جی کے ڈی اے نے کہا کہ کراچی کے ماسٹر پلان 2047 پر کام جاری ہے اور اس کی فزیبلٹی کی منظوری دے دی گئی ہے جس میں کراچی کے ناقص انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید ترین طرز پر بنایا جائے گا۔ کے ڈی اے کے فور پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ کے فور سے منسلک ضروری انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شروع کر کے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ کئی علاقے جہاں کے فور منصوبے کے تحت پانی کی فراہمی کی جانی ہے وہاں واٹر سپلائی نیٹ ورک ہی دستیاب نہیں۔ڈی جی کے ڈی اے نے بی آر ٹی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گرین لائن پراجیکٹ کے تحت بہت سی بسیں پہلے ہی چل رہی ہیں اور اورنج لائن پراجیکٹ کے لیے کچھ اور بسیں بھی آ چکی ہیں جو جلد مکمل ہو جائے گا جبکہ ریڈ لائن پراجیکٹ پر بھی جلد کام شروع ہو جائے گا۔ان تمام منصوبوں کو کے ڈی اے کی طرف سے جہاں بھی ضرورت پڑی مکمل سہولت فراہم کی جا رہی ہے کیونکہ یہ ادارہ کراچی کے انفرااسٹرکچر اور ٹرانسپورٹیشن سسٹم کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔ان منصوبوں کو کم سے کم وقت میں مکمل کیا جائے گا کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ یہ منصوبے لگ بھگ 8 سال پہلے شروع کیے گئے ہوتے تو اس سے یقیناً کراچی کو موجودہ بحرانوں جیسی صورتحال سے نجات مل جاتی۔انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور واٹر بورڈ کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے اکثر ترقیاتی کاموں کے دوران مسائل پیدا ہوتے تھے لیکن اب تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ کوآرڈینیشن کو بہتر بنا کر اس مسئلے کوحل کرلیا گیا ہے۔اس سال بجٹ میں کے ڈی اے کے لیے مختص رقم میں اضافہ کیا گیا ہے اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے حوالے سے عوام خاطر خواہ بہتری کا مشاہدہ کریں گے۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے فوکل پرسن کی نامزدگی کے ذریعے کے سی سی آئی اور کے ڈی اے کے درمیان روابط کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ تاجر برادری کو درپیش مسائل کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔اگر کے سی سی آئی اور کے ڈی اے کے درمیان روابط مضبوط ہوتے ہیں تو پوری تاجر برادری اس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کرے گی کیونکہ اس سے 90 فیصد مسائل کو حل کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے جبکہ شہر کو ناقص انفرااسٹرکچر، پانی، گیس اور بجلی کی قلت اور سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت میں آگ لگنے کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسنارکل تک نہیں ہے جو کہ واقعی تشویشناک ہے۔کراچی کو درپیش یہ تمام مسائل خصوصی توجہ اور اجتماعی کوششوں کے متقاضی ہیں ورنہ شہری اور یہ شہر مسائل میں الجھے رہیں گے۔انہوں نے کراچی میں انفرااسٹرکچر اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کے ڈی اے کی تمام کوششوں میں مکمل تعاون اور حمایت کے عزم کا بھی اظہار کیا۔قبل ازیں صدر کے سی سی آئی محمد ادریس نے ڈی جی کے ڈی اے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کراچی والوں کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کے ڈی اے کو کراچی میں ناقص انفرااسٹرکچر اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر حل نکالنا چاہیے۔کراچی کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی جبکہ کراچی چیمبر اس سلسلے میں کے ڈی اے کی ہرممکن مدد کے لیے ہمیشہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں سے لوگ روزگار کے لیے کراچی آتے ہیں کیونکہ یہ ملک کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن ہے لیکن اس کے باوجود شہر مختلف وجوہات کی بنا پر بری طرح متاثر ہوتا ہے بالخصوص کے ڈی اے کو محدود فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں یا خود کے ڈی اے کی طرف سے کمائے جارہے ہیں جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کو خطے کے دیگر میٹروپولیٹن شہروں بشمول دہلی، کولکتہ، ممبئی اور ڈھاکہ وغیرہ کے برابر لایا جائے جو ترقیاتی اور دیکھ بھال کے کاموں کے لیے سینکڑوں ارب وصول کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کے ڈی اے کو نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ قومی خزانے سے بھی سے فنڈز فراہم کرنے ہوں گے کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے جو شہر کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کا ذمہ دار ہے۔کراچی کو ایک بامقصد اور نتیجہ خیز ماسٹر پلان کی ضرورت ہے جسے جلد از جلد وضع کیا جائے کیونکہ ہم کئی سالوں سے ماسٹر پلان کے بارے میں سن تو رہے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، غیر قانونی پارکنگ، قبضہ مافیا کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور پبلک پارکس کا غلط استعمال وغیرہ کراچی کو درپیش سنگین ترین مسائل ہیں جس کا مشاہدہ کراچی کے تمام علاقوں خصوصاً تجارتی علاقوں میں باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ایریا ہے جہاں ڈی جی کے ڈی اے کو سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے اور غیر قانونی تعمیرات کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔محمد ادریس نے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈی جی کے ڈی اے سے ایک کمیٹی بنانے کی درخواست کی جس میں کراچی چیمبر کو نمائندگی دی جائے اور کے ڈی اے سے ایک فوکل پرسن کو بھی نامزد کیا جائے تاکہ مسائل پر توجہ دی جا سکے اور جلد از جلد خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔