لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں شرمناک تماشا جاری ہے۔ حکمران جماعتوں کے درمیان جاری چپلقش کا انجام خطرناک ہو گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے عوام کو سینڈوچ بنایا ہوا ہے۔ ظالم اشرافیہ کو عوام کی فکر نہیں، مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا سانس لینا دشوار ہو گیا۔ گھمبیر حالات میں حکمران جماعتیں مسلسل گالم گلوچ کی سیاست کو ہی پروان چڑھا رہی ہیں۔ اپنے رویے درست کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں مفادا ت کی جنگ جاری ہے۔ قوم اب ان حکمرانوں سے تنگ آ چکی ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں حکومت میں ہیں، صرف جماعت اسلامی ہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حکمرانوں کی لڑائی کی وجہ سے قوم شدید پولرائزیشن کا شکار ہے، قومی میڈیا تعمیری کردار ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں میڈیا کے ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری جنرل امیر العظیم، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ سراج الحق نے کہا کہ وفاق اور صوبوں نے جو بجٹ پیش کیے ہیں اس سے صرف مراعات یافتہ طبقہ کو مزید مراعات ملیں گی یا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ میں عام شہری کے حصے میں معاشی تباہی کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ کے حالیہ اجلاس میں ملکی تعلیمی نظام کو دور غلامی کا طبقاتی نظام قرار دیا ہے۔ اسی طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہم ایک امت یا ایک قوم بننے کے بجائے خاندانوں،گروہوں، مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت بھی پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہے، اس لیے ان سے بھی تعلیمی بہتری کی کوئی توقع نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس شعبہ تعلیم میں استعماری قوتوں اور این جی اوز کی مداخلت، حکومتی رویے ،لاپرواہی،غفلت، غلط پالیسیوں، اسلامی تعلیمات کو نصاب سے نکالنے، نااہل افراد کی تقرریوں، عدم توجہی،کرپشن، بے حیائی وناچ گانے، نظم و ضبط کا فقدان، غیرمعیاری تعلیم سمیت دیگر تمام امور پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل اہم اور فوری اقدامات تجویز کرتا ہے کہ امت واحدہ کی تشکیل کے لیے ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں یکساں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کورائج کیا جائے۔مسلمانوں کی تاریخ میں مخلوط نظامِ تعلیم کی گنجائش نہیں ہے، اسے فی الفورختم کیا جائے۔ پرائمری کی سطح کے بعد طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی اداروں کے انتظامات کیے جائیں۔ نیز خواتین کے لیے الگ یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5تا 16سال عمر کے بچوں اور بچیوں کی مفت اور لازمی تعلیم کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں عدم توجہی، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے تعلیم غیر معیاری اور گراوٹ کا شکار ہے۔ اس لیے کرپٹ، نااہل افراد کی جگہ ایمان دار، دیانت دار اور قابل افراد کی تقرریوں کو یقینی بنایا جائے۔ اساتذہ کی تقرریوں کو یقینی بنایا جائے اور جانچ کا نظام وضع کیا جائے۔ ہر سطح کے نصاب میں عربی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے۔ غیرملکی این جی اوز اور استعماری قوتوں کے دباؤ میں آکر نصاب تعلیم سے قرآن کی آیات، سیرت النبی ﷺ، غزوات، مسلمان شخصیات اور مسلمانوں کی علمی وسیاسی عظمت پر مبنی لوازمے کو انتہاپسندی سمجھ کر نکالنے کے سلسلے کو بند کیا جائے۔ ملک میں موجود مساجدو مدارس شرح خواندگی بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے ان کے یوٹیلٹی بلز معاف کیے جائیں اور ان اداروں کے لیے بھی بجٹ میں باقاعدہ حصہ مختص کیا جائے۔