آواز لگائی جارہی تھی آج کی تازہ خبر ایک شخص نے کھڑے کھڑے بیس افراد کو بیوقوف بنادیا ایک راہگیر نے لپک کر اخبار خریدا اور چند منٹوں میں کھنگال ڈالا لیکن اسے وہ خبر نہ ملی، واپس مڑا تو وہ آواز لگا رہا تھا۔ آج کی تازہ خبر ایک شخص نے کھڑے کھڑے اکیس افراد کو بیوقوف بنادیا۔ہمارے یہاں دو قسم کی لوگ ہیں ایک وہ جو بیوقوف بناتے ہیں دوسرے جو بیوقوف بنتے ہیں۔ اور جو بیوقوف بناتے ہیں وہ بھی کسی سے بیوقوف بن رہے ہوتے ہیں اور جو بیوقوف بن رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی کو کسی نہ کسی طریقے سے بیوقوف بنارہے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کو بیوقوف بنانے کے لئے خود ہی بیوقوف بن جاتے ہیں۔سیاست کو ہی لے لیجئے یہاں بیوقوف بننے اور بنانے کی مثالیں جا بجا بکھری پڑی ہیں اور یہاں تک کہ کچھ لوگ تو سیاست کو نام ہی لوگو ں کو بیوقوف بنانے کا دیتے ہیں ہمارے ایک سابق وزیر صاحب جو پیشگوئیوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ہیشگوئیوں کے درست ہونے کے انتہائی برے ریکارڈ کے باوجود وہ ہر بار اپنی خواہش کو ہیشگوئی کا نام دے کر بڑے بڑے دعوے کر ڈالتے ہیں اور کئی لوگ بھی ان کی پیشگوئی کو صرف اس لئے درست مان لیتے ہیں وہ ان کی بھی خواہش ہوتی ہے۔
تازہ ترین مثال ہی لے لیجئے یہی سابق وزیر اپنی حکومت جانے سے چند روز پہلے تک مکے لہرا لہرا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ حکومت کہیں نہیں جارہی اور چند روز میں حکومت چلے جانے کے بعد کہہ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں تو کئی ماہ پہلے علم ہوگیا تھا کہ حکومت جارہی ہے۔ اب اگرچہ وہ دوسرے لفظوں میں اعتراف کررہے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان کی پہلی بات پر بھی یقین کرلیا اور دوسری پر بھی۔ایک پرانے سیاستدان نے ایک نجی محفل میں ملکی سیاست کی تعریف جب یہ کہہ کی کہ بیوقوف لوگوں کو بیوقوف بنائے رکھنا ہی سیاست ہے تو ان کے ساتھ بیٹھے لوگوں نے خوب قہقہے بلند کر کے اس قوم زعین پر داد تھسین پیش کی لیکن ان بیچاروں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ہر دل عزیز رہنما جن لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں وہ سب بھی انہی میں شامل ہیں۔دراصل پاکستان میں سیاست اب نظریات سے نکل کر جذبات پر آگئی ہے۔ نظریاتی کارکن جو اب نایاب ہوتے جارہے ہیں،کسی شخصیت کے پیچھے نہیں ایک نظریے کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخصیت چاہے کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو نظریے سے پیچھے ہٹے تو کارکنان اس شخصیت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے نظریے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں دوسری جانب جذباتی کارکنان کے لئے نظریہ کوئی چیز نہیں وہ شخصیت اہم ہوتی ہے جیسے وہ اپنا لیڈر سمجھتے ہیں۔ اس لیڈر کی سوچ اس کے خیالات ہی ان کارکنان کا نظریہ ہوتا ہے۔ یہ کسی نظریے کے لئے نہیں بلکہ اس شخصیت کے لئے جذباتی ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت میں اس شخصیت کے فینز ہوتے ہیں جنہیں اس بات سے زیادہ غرض ہوتی ہے کہ وہ پہنتا کیا ہے چلتا کیسے ہے،دکھتا کیسا ہے۔ اس سے نہیں کہ بولتا کیا ہے بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ بولتا کیسا ہے ۔۔وہ اس کی ہر بات کو ہی درست سمجھتے ہیں یا یوں کہہ لیں غلط سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ جذباتی کارکنان کو بیوقوف بنانا آسان ہوتا ہے ۔ ۔
ایسا ہرگز نہیں کہ سبھی سیاستدان ایک سے ہوتے ہیں کئی سچ ہر مبنی سیاست کو مشن سمجحتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنائے رکھنے کے فلسفے کے قائل نہیں ہوتے بلکہ ان کے سامنے ہر بات سچائی کے ساتھ رکھ دیتے ہیں، پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ عوام ان کو بیوقوف بنا ڈالتے ہیں۔ اور مجبوراً وہ بھی جیسے کو تیسا کی روش پر گامزن ہوجاتے ہیں یا سیاست سے ہی کنارہ کشی کو بہتر جان لیتے ہیں ہمارے یہاں کامیاب سیاستدان اسے سمجھا جاتا ہے جو عوام کی نبض ہر ہاتھ رکھ سکے یعنی ان کی نفسیات سے کھیل سکے سادہ لفظوں میں انہیں آسانی سے بیوقوف بنا سکے۔۔
عوام کاشعور ہی ان کی اصل طاقت ہوتی ہے اور جذباتیت اس شعور کو ایسے ہی کھا ڈالتی ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ، ایک بار باتوں میں آجانا اور بیوقوف بن جانا غلطی ہو سکتی ہے لیکن دوسری بار کی غلطی ،غلطی نہیں مرضی کہلاتی ہے۔اب سوچیں اگر آج اس آدمی کے ہاتھوں بیوقوف بننے والا اگلے روز پھر اسی کے پاس جائے پھر اس کی بات پر یقین کرکے اخبار خرید کر پھر دھوکا کھا لے تو اسے بیوقوف نہیں بلکہ شوقیہ بیوقوف کہا جائے گا،کیا خیال ہے ؟
شوقیہ بیوقوف
Jun 16, 2022