احتساب اور اسلام ( روشن تاریخ کا سنہراباب )

الف کی تلاش …سعدیہ کیانی  
Sadianpk@gmail.com 
اللہ تعالیٰ نے یہ جہان بنایا اور دیگر مخلوقات کے ساتھ ساتھ انسان کو بھی بنایا، ایک بہترین سوچنے والے دماغ کے ساتھ۔  اور انسان کو بتایا کہ دیکھو اس تمام جہان کا اور تمہارا مالک و خالق میں اکیلا ہی ہوں لہٰذا دو باتیں یاد رکھنا ایک یہ کہ یہ دنیا کی ذندگی ایک ٹیسٹ ہے اور دوسرا یہ کہ تمہارا ایک دن احتساب ہوگا۔ احتساب ہوگا ہر اس عمل کا جو تم نے کیا، ہر اس بات کا جو تم نے کہی۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بات مختلف انداز میں بیان ہوئی کہ خبردار خود کو شتر بے مہار نہ سمجھو اور اعمال کو میرے احکامات کی روشنی میں ادا کرو کہ میں تم سے سخت حساب لوں گا۔ یہ بات ہمارے پیار آقا جی ؐنے بھی بیان فرمائی کہ احتساب معاشرے کا لازم و ملزوم اور انتہائی اہم حصہ ہے، اور اسے عملی طور پر نافظ کیا ۔ اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے آپؐ نے یہاں تک کہا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی اگر چوری کریں گی تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دوں گا۔ آقا جیؐ ؓؓکے احتساب بلا امتیاز کے احکامات کو اس وقت کے تمام مسلمانوں نے دل و جان اور ادب و احترام سے اپنایا۔ اور اس کاعملی مظاہرہ کچھ عرصے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے دور میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ آقا جیؐ کی کہی ہوئی بات کو نہ صرف خواص بلکہ عام نے بھی سمجھ لیا تھا۔ جب  بیت المال سے چادریں تقسیم ہوئیں تو سب کے حصے میں ایک ہی چادر آئی، حضرت عمرؐ چونکہ دراز قد تھے تو یہ ممکن نا تھا کہ آپ کا کرتہ ایک چادر میں بنتا بلکہ اس کے لئے دو چادریں درکار تھیں اس بات کو ایک عام سے مسلمان نے نوٹ کیا اور جب آپ جمعہ کے لئے ممبر پر تشریف لیجانے لگے تو اس بدو نے آپ کو روک لیا اور کہا "اے عمر ، آپ ممبر پر بعد میں تشریف لیجائیں پہلے یہ بتائیں کے جب سب نے ایک چادر لی تو آپ نے کیسے دو چادریں لے لیں اپنے لئے"۔ اس کاجواب حضر عمر ؓ یہ بھی دے سکتے تھے کہ بھائی تم ہو کون جو مجھ سے یہ پوچھ رہے ہو تمہیں پتہ نہیں میں کون ہوں؟ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کے آقا جیؓ کیا فرما کر گئے ہیں لہٰذا جواب میں اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ تم بتاؤ یہ دوسرے چادر میرے پاس کہاں سے آئی، تو آپ کے بیٹے نے اطمنان سے جواب دیا کہ سب کو ایک ہی چادر ملی بشمول میرے والد کے مگر چونکہ ان کا کرتہ ایک چادر میں نہ بن سکتا تھا تو میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کو دے دی۔ آپ ؓنے جب بدو کو اس جواب سے مطمن دیکھا تو ممبر پر تشریف لے گئے۔ اور اس بات پر بجائے خفگی کرنے کے فرمایا شکر ہے اے اللہ امت محمد میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر عمر بھی ٹیڑھا ہونے لگے تو اسے سیدھا کر دیں گے۔  اگر اس وقت حضرت عمر ؓ اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بدو کو ڈانٹ کر چپ کروا دیتے تووہ بدو شاید ڈر کے چپ ہوجاتا مگر اس سے معاشرہ مرنا شروع ہوجاتاہے، عوام کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے ، اور ان میں ایک غلامانہ سوچ جنم لینے لگتی ہے، لوگوں کی ذہنی نشمونما رک جاتی ہے اور ان میں مایوسی سر اٹھاتی ہے۔ اور ایسی قوم کسی دشمن سے نہیں لڑ سکتی اور دشمن کے لئے اسان نوالہ ثابت ہوتی ہے۔ آج مغربی ممالک کی ترقی اور اس کی فلاہی ریاستیں  اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں اور ہماری زبوں حالی اسی بات کا  خمیازہ ہیں کہ ہم میں احتساب کا عمل رک چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہم میں احتساب بلا امتیاز جاری و ساری رہا ہم دنیا پر راج کرتے رہے، ہمارے نام کا سکہ چلتا رہا مگر جوں جوں اس عمل کو روکتے گئے ہم پستیوں میں گرتے گئے۔ 
 دوسرا قابل ذکر واقعہ بھی حضرت عمر ؓ کے دور کا ہی ہے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کو کون نہیں جانتا۔ ان کی شجاعت بہادری سے لے کر جنگی حکمت عملی پر مہارت کے نہ صرف مسلمان قائل تھے بلکہ غیر مسلم بھی ان کی تعریف کرتے تھے اور آج بھی ہیں۔  حضرت خالد بن ولیدؓ ایک پیدائشی جرنیل تھے، جنگی منصوبہ بندیوں سے لے کر جنگی حکمت عملی، اللہ نے آپ کو ایک بھرپور دماغ دیا تھا۔ آپ کی ساری عمر ہی جنگوں میں گزری اور پوری زندگی میں پچاس سے زیادہ جنگیں لڑیں اور ہر جنگ میں فتح یاب ہوئے۔ اسلام سے پہلے بھی ان کا ایک نام تھا اور اسلام کے بعد بھی ان کا نام رہا۔ فرق یہ تھا کہ پہلے اسلام کے خلاف لڑتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد سیف اللہ کے لقب سے نوازے گئے۔ روم اور فارس جیسی عظیم سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے یہی سپہ سالار تھے جو ایک کے بعد ایک کامیابی سمیٹے رہے اور اسلامی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دیتے گئیجہاں پیغام محمد? پھیلتا چلا گیا۔  دنیا پر پہلی بار آشکار ہوا کہ مسلمان بھی کوئی ہیں جنہوں نے سینکڑوں سالوں پر محیط دو عظیم سلطنتوں کو چند سالوں میں ہی کمزور کر دیا ۔  جب یہ فتوحات ہو رہی تھیں اور اسلامی فوج حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دشمنوں سے لڑ رہی تھی تو اسی دوران ایک نہایت اہم اور عقل دنگ کر دینے والا واقعہ رونما ہوتا  ہے، کہ اتنے نازک لمحے میں ایک انتہائی اہم اور انتہائی غیر معمولی احکامات  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے صادر ہوتے ہیں۔  اس واقعہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب اسلامی فوج کی کمان حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہاتھ میں آتی ہے تو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسلامی فوجوں کی پیش قدمی میں بہت تیزی آتی ہے نیز ہر جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مدینہ میں ہر زبان پر یہ بات آتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید ؓ جس جنگ میں بھی قیادت کرتے ہیں اس میں فتح ہوتی ہے۔ اب بظاہر  دیکھنے میں یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں مگر حضرت عمرؓ جیسے مرد نگاہ والے انسان نے اس میں چھپے دو خطرات بھانپ لئے اور فوری طور پر اس کو روکنے کا ارادہ کیا۔ ایک بات تو یہ تھی کی مسلمانوں میں اس بات کو نکالا جائے کہ فتح اور شکست کسی انسان   یا جنگی مال و اسباب کی وجہ سے نہیں بلکی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے تو یہ نظریہ کہ فلاں شخص اگر اسلامی فوج کی کمان کرے گا تو فتح سو فیصد یقینی ہے اسلامی تعلیمات کے منافی تھا اور انتہائی ضروری تھا کہ اسے فل فور ختم کیا جائے، اور دوسری اہم وجہ میری نظر میں شاید یہ رہی ہو کہ چونکہ فوج براہ راست حضرت خالید بن ولید ؓ کے زیر کمان تھی اور فتح یابی کے بعد مال غنیمت بھی سب سے پہلے انہی کے پاس جمع ہوتا تھا اور اس کے بعد مدینہ بھیجا جاتا تھا۔ حضرت خالد بن ولید کی مقبولیت اسلامی فوج میں تو بہت زیادہ تھی کہ آپ ہر جنگ میں عام مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑتے تھے اور ہر دم فوج کے بیچ میں رہتے تھے دوسرا آپ کی مقبولیت اور چاہت اب مدینہ میں بھی پھیل رہی تھی تو شاید میری نظر میں حضرت عمرؓ  کو یہ لگا ہو کہ کہیں یہ ماحول بغاوت کا سبب نہ بن جائے  کیونکہ اگر حضرت خالد بن ولید بغاوت کرنا چاہتے تو تمام تر اسباب ان کے حق میں تھے۔ اسی دوران ایک خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی جاتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے اشعث بن قیس نامی ایک شاعر کو دس ہزار درہم بطور تحفہ دیے ہیں چونکہ اس نے حضرت خالد بن ولید کی جنگی فتوحات پر ان کے لئے ایک قصیدہ لکھا تھا جو حضرت خالد بن ولید کو بہت پسند آیا۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک خط دے بھیجا ساتھ میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو احکامات دیے کہ جب آپ وہاں پہنچیں تو حضرت خالد کے سر سے دستار اتار کر ان کے ہاتھ پیچھے باند کر اور فوج کے درمیان میں انہیں کھڑا کر کے ان پر  یہ چارج شیٹ با آواز بلند پڑھ کر سنانا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے اور خلیفہ کی ہدایات پر عمل درآمد کر لیا تو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی۔ " آپ پر الزام ہے کہ آپ نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم بطور تھفہ دیئے ہیں، آپ ان دس ہزار درہم کے بارے میں بتائیں کہ یہ آپ کے پاس کہاںسے آئے، اگر تو آپ نے بیت المال سے دیے تو آپ نے خیانت کی اور اگر اپنی ذاتی جیب سے دیے تو بے جا اصراف کیا، لہٰذا آپ کوکمانڈر اسلامی فوج  کے عہدے سے بر طرف کیا جاتا ہے اور فوج کی کمان حضرت ابو عبیدہ کو دی  جاتی ہے"۔ اسلام میں یہ سب سے پہلا باقائدہ کورٹ مارشل تھا، فوج کے سب سے نمایاں کمانڈر اور عین حالت جنگ میں اس پر عمل درآمد کرایا گیا۔  اب آپ کو اس بات کی باریکی کا اور اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہوگا کہ حضرت عمرؓ کا یہ کتنا ڈئیرنگ قدم تھا جس کا اختتام بغاوت پر ہو سکتا تھا مگر نہیں، دوسری طرف بھی تو آپ کے سچے پیرو کار ہی تھے نہ حضرت عمر ؓکے پاس یہ پورا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں کمان سے ہٹا دیں اور جسے چاہیں نیا کمانڈر لگا دیں ۔  سپریم کمانڈر کا حکم ماننا نہ صرف قرآن کی تعلیمات میں ہے بلکہ آنحضورؐ کی تعلیمات میں بھی ہے۔ چنانچہ حضرت خالید بن ولیدؓ نے اس  بلا چوں و چرا اس پر عمل کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید کو جب یہ حکم پڑھ کر سنایا گیا تو آپ نے مسکرا کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا "اور اگر میں ایسا نہ کروں تو؟"  تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تلوار نکال کر کہا" تو پھر اس سے ہم تمہیں اس فیصلے پر آمادہ کریں گے" تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے کہا "مجھے خلیفہ کا فیصلہ دل و جان سے منظور ہے"۔  اور آمادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ روٹھ کر یا ناراض ہو کر میدان جنگ سے چلے گئے ہوں کہ یہ لوفوج کی کمان اب تم جانو اور تمہارا کام میں الگ ہو رہا ہوں ، نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ بطور نائب کمانڈر حضرت ابو عبیدہ ؓ کے زیر کمان جنگ لڑتے رہے۔ اسی سے دوسرا نقطہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں احتساب بلا امتیاز کتنا اہم جز ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عین حالت جنگ میں بھی اس کو معطل نہیں کیا اور نہ ہی ٹالا بلکہ جیسے اطلاع ملی اسی وقت اس پر احکامات جاری کیئے۔ آج ہمارے معاشرے کی تباہی کی وجہ یہی نظریہ ضرورت اور اس کے تحت احتساب کے عمل کو روکنا ہے۔ جہاں قرآن اور رسولؐ تعلیمات اور احکامات واضح ہیں وہاں بطور مسلمان اور امت محمدیہ ؐ نہ تو چوں و چرا کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی اسے ملتوی یا ختم کر سکتا ہے کیونکہ یہ احکامات آپؐ براہ راست امت کو دے کر گئے .

ای پیپر دی نیشن