اعجاز احمد
گذشتہ کئی سالوں سے خیبر پختون کا پڑھا لکھا ضلع صوابی قتل وغارت کی شدید لپیٹ میں ہے ۔ اور آئے دن اس قسم کے واقعات اور قتل وغارت کے واقعات میںمزید اضافہ ہورہا ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرصوابی کے رپورٹ کے مطابق سال 2021سے اپریل 2023 تک 28 مہینے میں ضلع صوابی میں 591 لوگ قتل ہوئے۔اور اسی طرح مئی کے مہینے 4 اور جون کے مہینے میں 4 لوگ قتل ہوئے۔ جس میں519 کے کیسز مختلف تھانوں اور پولیس سٹیشن میں درج کئے گئے اور باقیماندہ کیسز کسی نہ کسی وجہ سے رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔اگر ہم وطن عزیز میں قتل یعنیMurdersکے کیسوں کا اندازہ لگائیں تو اس وقت وطن عزیز میں ایک لاکھ کی آبادی میں قتل کیسوں کی تعداد 3.8ہے جبکہ اسکے بر عکس ضلع صوابی میں سال 2021 میں 226 لوگ قتل ہوئے جسکی اوسط شرح ایک لاکھ آبادی میں 13، سال 2022 میں 276 لوگ قتل ہو ئے اور قتل کی شرح 16 اور 2023 کے چا رمہینوں میں یعنی اپریل کے احتتام تک 89 لوگ قتل ہوئے جسکی اوسط شرح 14 ہے ۔ جبکہ اسکے بر عکس بھارت میں ایک لاکھ آبادی کے حساب سے قتل کی شرح 2.9، بنگلہ دیش میں 2.3، سری لنکا میں 0.5بھوٹان میں 0.1 اور نیپال میں 2.3 ہے۔جبکہ ایشیاء میں ایک لاکھ آبادی میں قتلوں کی شرح 2.1ہے۔ اگر ہم ضلع صوابی میں قتلوں کی شرح پر نظر ڈالیں تو یہ ایشاء کے 48 ممالک میں 7 سے 8 چند ، جنوبی ایشاء میں 8 چند اور وطن عزیز کے دیگر صوبوں اور علاقوں سے 3 سے 4 چند زیادہ ہے۔اگر ہم تجزیہ کریں تو اسکے بُہت سارے وجوہات ہیں جس میں بے روز گاری ،لاقانونیت، قانون کی حکمرانی نہ ہونا ، بھوک، غُربت افلاس، آپس میں جائیداد اور دوسرے معاملات پر خاندانی دشمنیاں ، منشیات اور خاص طور پر آئس کا بے دریغ استعمال ، پولیس کی نا اہلی ،گد ون امازئی سے 450 صنعتوں کا دوسرے علاقوں میں شفٹ کرنا ، جو پوست کاشت کے متبادل قائم کئے گئے تھے، عدالتی نظام کی ناکامی ، سزا جزا کا کنسیفٹ نہ ہونا، زمینوں اور پراپرٹی کے مسائل ، سیاست دانوں کا علاقے میں مختلف مسلح گروہوں کی پشت پناہی کرنا ، پولیس کے تقرریوں اور تبادلوں میں مداخلت وغیرہ کرنا شامل ہے۔ مگر اس میں سب سے بڑی وجہ عدالتی نظام کی ناکامی ، عام لوگوں اور کمزور طبقات کا انصاف تک رسائی نہ ہونا ، سزا اور جزا کا کنسیفٹ ختم ہونا شامل ہے۔ضلع صوابی کے 519 رجسٹرڈ کیسوں میں 513 عدالت میں پیش کئے گئے اور جہاں تک پولیس کی ڈیوٹی تھی انہوں نے اپنا کام مکمل کیا مگر یہ افسوس کا مقام ہے ڈھائی سال میں ان کیسوں میں صرف دو کیسز فیصلہ ہوئے۔ اور باقی کیسز عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔اور یہی وجہ ہے جب کسی معاشرے میں سزا اور جزا کا کنسیفٹ نہیںہوتاتو اس سے چوروں ڈاکووں اور قاتلوں کے دل مزید بڑھ جاتے ہیں اور تشدد اور معمولی سی معمولی باتوں پر قتل کرتے ہیں۔جنرل راحیل شریف کے دور میں کچھ لوگوں کو پھانسی کی سز سُنائی گئی نتیجتاً قتل و غارت میں بُہت حد تک کمی آئی ۔عدالتوں کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ اس وقت مملکت خداداد پاکستان کے عدالتوں میں 21 لاکھ سے زیادہ کیسز التوا کا شکار ہیں جس میں زیادہ کیسز 10 اور 20 سالوں تک عدالت میں پڑے ہیں اور آئے دن اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 140 نمبر ہے۔جبکہ عدالتوں کے ججز حضرات اور ماتحت عملہ بڑی سے بڑی تنخواہی لیتے ہیں۔سپریم کو رٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ، دیگر مراعات کے علاوہ 15 لاکھ اور جسٹس حضرات کی تنخواہ 14 لاکھ ہے۔ مگر اسکے باوجود بھی عدالتیں عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بنا سکی۔اگر ہم سال 2009 کی جو ڈیشل پالیسی پر نظر ڈالیں تو اس پالیسی کے مطابق فوجداری یعنی قتل اور دیوانی یعنی زمین کے کیسوں کے فیصلہ کرنے کے لئے جو وقت مقرر ہے وہ ایک سال ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہماری عدالتیں خود اپنی بنائی اور طے شدہ پالیسیوں پر عمل نہیں کرتی اور بدقسمتی سے دیوانی اور فوجداری کیسز 10 سال سے 20 سال تک التوا کا شکار ہوتے ہیں اور بعض حالات میں یہ کیسز نسل در نسل چلتی جا رہی ہوتی ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے پولیس اور عدالتی نظام کو تیز اور بہتر بنانا ہوگا۔ منشیات ، آئس اور سمگلنگ پر قابو پانا ہوگا۔ گدون آمازئی انڈسٹریل زون جو ضلع صوابی اور خاص طور پر گدون آمازئی میں پوست اور افیون کے متبادل کے طور پر قائم کیا گیا تھا اسکو دوبارہ بحال کرنا ہوگا، صبر ، بر داشت اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ اگر ہم نے مندرجہ بالا اقدامات پرعم نہیں کیا تو ہم مزید تباہی اور بر بادی کی طر ف جائیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ریاست کفر سے چل سکتی ہے مگر انصاف کے بغیر نہیں چل سکتی۔