ذیشان کلیم معصومی
شمس الفقراء حضرت شمس الدین سبزواری اپنے وقت کے کاملین صوفیائے کرام میں سے تھے آپ نے اسلام کی تبلیغ دنیا بھر میںکرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار گھرانوں کے سرداروں کو نور اسلام سے منور فرمایا۔ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان کو سن ۵۶۰ ھ میں غزنی کے ایک شہر سبزوارمیں ہوئی اس وقت عراق پر محمد یار مرزا کی حکومت تھی آپ کا شجرہ نسب سیدناحضرت امام جعفر صادق سے ملتا ہو ا اس طرح سیدنا حضرت علی المرتضیٰ ؓ تک جا پہنچتا ہے ۔ہوش سنبھالنے پر حضرت شمس الدین کو ان کے چچا عبد الہادی کے سپرد کر دیا گیا جو شاہ مراکو کے پوتے اور متبحرعالم تھے انھوں نے آپ کو بڑی توجہ سے تفسیر فقہ حدیث اور دوسرے علوم ظاہری سے بھی آراستہ کر دیا صرف سولہ برس کی عمر میں آپ نے تمام دینی و دنیاوی تعلیم مکمل کر لی ۔۵۷۹ھ میں سید صلاح الدین تبلیغ کے لئے بدخشاں روانہ ہوئے تو شمس سبزواری کو بھی ساتھ لئے گئے اس وقت آپ کی عمر انیس برس کی تھی بدخشاں میں تبلیغ کے بعد آپ تبت کو چک گئے اور لوگوں کو اسماعیلی تبلیغ کا درس دیا وہاں سے آپ نے کشمیر کا رخ کیا جہاں سے آپ کی کرامات کو دیکھ کو بے شمار لوگوں نے اسلام کی دولت کو قبول کیا آپ نے کوہستان اور سکردو میں بھی اسلام کی شمع کو روشن کیا کشمیر میں آپ کو شمس الدین عراقی کے نام سے جانا جاتا جہاں سورج پرست رہتے تھے آپ اور آپ کے والد گرامی کی کاوشوں سے اس علاقے کے ہزاروں افراد نے ان عقائد کو قبول کیا۔ ۵۷۶ھ کو آپ اپنے والد کے ہمراہ واپس اپنے وطن سبزوار آئے جہاں آپ کی شادی آپ کے چچا حضرت سید جلال الدین کی بیٹی سے ہوئی۱۲ رجب بروز جمعتہ المبارک آپ کے پہلے فرزند جن کا نام سید نصیر الدین محمد رکھا گیا پیدا ہوئے اور ٹھیک دو سال کے بعد آپ کے دوسرے فرزند سید علاؤ الدین احمد جمعہ کے روز ہی پیدا ہوئے سید علاؤالدین احمد زندہ پیر کے لقب سے مشہور ہوئے آپ نے ان دونوں فرزندوں کو دینی ودنیاوی تعلیم سے سرفراز کرنے کے بعدتبزیز کا رخ کیا کیونکہ شمس سبزواری کو تبریز بہت پسند تھا چنانچہ ۶۰۰ ھ میں والد کی اجازت سے آپ وہاں تشریف لے گئے اور متعد دمقامات پر تبلیغ میں مصروف ہو گئے اس عرصہ میں اسماعیلی مرکز الموت ختم کر دیا گیا اور خلافت عباسیہ تباہ ہو گئی تو آپ ہجرت کر کے سبزواری سے بغداد آگئے وہاں سے آپ کاظمین چلے آئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئے اور ملتان کا رخ کیا ملتان میں اسماعیلیوں کا اقتدار کئی سو سال رہا تھا اگرچہ ان دنوں میں ختم ہو چکا تھا مگر پھر بھی کچھ اعتقاد رکھنے والے باقی تھے آپ کی ملتان آمد ۵۷۴ء بیان ہوتی ہے تقریبا دس برس بعد آپ نے یہاں وصال فرمایا آپ کے مساعی کی وجہ سے کسی حد تک اسماعیلی رسوم اور ہندؤ عقائد میں ہم آہنگی کے باعث کئی ہندو گھرانے مسلمان ہوئے یہ لوگ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک ہندوانہ ناموں اور رسموں کے ساتھ مسلمان سمجھے جاتے تھے۔
حضرت شاہ شمس سبزواری کے متعلق کئی روایات مشہور ہیں بقول تذکرۃ الملتان شاہ شمس صوفی بزرگ تھے اس نظریہ کی تائید میں مولف تاریخ ملتان نے مزارات اور ملحقہ مسجد پر معروف شعر
چراغ و مسجد محراب و منبر
ابو بکر و عمر عثمان و حیدر
کے ثبت ہونے کا حوالہ دیا ہے موجودہ مزار اور مسجد ۱۱۹۴ھ میں تعمیر ہوئی دوسری روایت یہ ہے کہ آپ اسماعیلی قرامطی داعی تھے یہ روایت زیادہ قرین قیاس ہے۔ آپ کے ایک صاحبزادے سید نصیر الدین کا مزار لاہور میں ہے سید نصیر الدین کی اولاد میں سے حسن کبیر الدین نے بھی تبلیغ اسلام کا کام کیا ان کا مزار اوچ شریف ضلع بہاولپور میں ہے ان کے فرزند عالم شاہ المعروف جتو شاہ کا مزار شاہ شمس کے غربی پہلو میں ہے اور حسن کبیر کی اولاد سے سید علی اکبر سورج میانی ملتان میں مدفون ہیں ۔آپ کے دوسرے صاحبزادے سید علاؤ الدین احمد کی کوئی اولاد نہ تھی ۔
حضرت شاہ شمس کے بارے میں ایک اور واقعہ بھی بہت مشہور ہے مگر تحقیق سے ثابت نہیں ہے کہ یہ واقعہ انہی کا ہے یا تبزیز میں شاہ شمس کا ہے ملفوظات کمالیہ میں ہے کہ آپ ۱۲برس تک حالت سکر میں شہر تبریز میں سکونت پذیر رہے اس طرح آپ شمس تبریزی کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ کی ولادت سبزوار میں ہے اسی لئے سبزواری کہلائے ۔ روایت کے مطابق مولانا جلال الدین رومی جو اپنے وقت کے مایہ ناز عالم دین مانے جاتے ہیں ان سے آپ کی ملاقات ہوئی مولانا اپنے مدرسہ میں طالب علموں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ فرما رہے تھے آپ مدرسہ کے اند ر تشریف لے گئے۔جہاں کتابوں کو تالاب میں پھینک دینے کا واقعہ اور پھر ان کا صحیح سلامت باہر نکال لینا بھی بیان ہوتا ہے۔اور پھر عراق سے جب آپ نے ہندوستان کا رخ کیا تو ملتان تشریف لے آئے ۔ سب سے پہلے اسی جگہ تشریف لائے جہاں آپ کا مزار ہے سینکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی آپ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دیتے رہے آپکے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ آپ کی آمد شیخ الاسلام سیدنا حضرت غوث بہاء الدین زکریا ملتانی کو نا گوار گزری تھی حضرت زکریا نے دودھ کا لبالب پیالہ بھیجا ہے تاکہ واضح ہو ملتان پہلے ہی اولیاء سے پرْہے مگر شمس الدین نے اس پر گلاب کا پھول رکھ دیا جس سے جتانے کی کوشش کی ہم ان میں پھول کی مانند رہیں گے ۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا والا قصہ سو ان کا سن وصال ۶۶۶بیان کیا جاتا ہے اس لئے اغلب ہے کہ شاہ شمس کے ملتان میں وارد کے وقت حضرت غوث بہاء الدین زکریامو جود نہ تھے لہذا یہ روایت بر سبیل افسانہ ہے آپ کا وصال ۱۱۵ برس کی عمر میں ملتان ہوا آپ کا 769 واں سالانہ تین روزہ عرس مبارک یکم،دو تین جون کو عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا،جہاں حاضری دے کربے شمار لوگ آپ کے فیض سے جھولیاں بھرتے رہے اللہ کریم اولیائے کرام کے فیض سے ہمیں دامن بھرنے کی توفیق عطا فرما دے آمین