اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس میں 436 پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سامنے 9 سوالات رکھ دیئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس میں 436 پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تحقیقات کے معاملے پر جماعت اسلامی کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ سوالات میں پوچھا گیا ہے کہ کیوں اور کن حالات میں اس کیس کو پانامہ کیس سے الگ کیا گیا؟، کیا بیرون ملک جائیدادوں کا معاملہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ءکے تحت نہیں آتا؟، ٹیکس واجبات کی ادائیگی ایف بی آر افسروں کے اختیار میں نہیں آتی؟۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کیلئے رقوم سٹیٹ بینک اور فارن ایکسچینج مینوئل سے متعلقہ نہیں؟، کیا ایف بی آر اور سٹیٹ بینک کے پاس ان معاملات پر از خود فیصلوں کا نظام موجود نہیں؟، کیا درخواست گزار نے سٹیٹ بینک، ایف بی آر، ایف آئی اے اور دیگر اداروں سے رجوع کیا؟۔ عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی سے پوچھا ہے کہ متعلقہ اداروں کی موجودگی میں ان معاملات پر انکوائری کیلئے کیا الگ سے کمیشن بنایا جانا چاہئے؟، الگ سے کمیشن قائم کرنے سے کیا متعلقہ اداروں کا کام متاثر نہیں ہوگا؟، کیا 436 افراد کو نوٹس کئے بغیر کمیشن قائم کیا جاسکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کا مزید کہنا ہے کہ عدالت پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ جماعت اسلامی کی درخواست قابل سماعت ہے، اگر عدالت پہلے قرار نہ دے چکی ہوتی تو قابل سماعت ہونے کا سوال اٹھ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جماعت اسلامی کے وکیل نے معاونت کیلئے وقت مانگا، مقدمے کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کی جاتی ہے۔