عالم فاضل لوگوں کی بے پناہ تعداد صدیوں سے فطرت انسانی کے کلیدی بھیدوں کا کھوج لگانے میں مصروف رہی ہے۔ حتمی رائے مگر ابھی تک طے نہیں ہوپائی۔ اس کے باوجود مجھ جیسے دیہاڑی دار کالم لکھتے ہوئے ہر موضوع کو ”عقل کل“ والی رعونت کے ساتھ زیر بحث لانے سے باز نہیں رہتے۔
گزشتہ کئی دنوں سے اعتراف کررہا ہوں کہ ملکی سیاست سے متعلق کئی سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہوئے یہ فیصلہ نہیں کرپارہا کہ فقط عقل سے رجوع کروں یا دل میں آئی بات برجستہ بیان کردوں۔ ذہن کو سب سے زیادہ مفلوج اس سوال نے بنا رکھا ہے کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ”دیوالیہ“ کی جانب بڑھ رہا ہے یا نہیں۔
چند ہی دن قبل لکھے ایک کالم میں مصر رہا ہوں کہ ”دیوالیہ“ کا لفظ ہمارے ہاں نہایت بے دردی سے استعمال ہورہا ہے۔وجہ اس کی یہ حقیقت ہے کہ ریاست کے دیوالیہ ہوجانے کی وجہ سے وہاں کے میرے اور آپ جیسے عام انسانوں کی روزمرہّ زندگی جس انداز میں اجیرن بن جاتی ہے اسے حقیقتاََ محسوس کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔پنجابی کا ایک محاورہ اسی باعث ”واہ پیا جانے یا ر اہ پیا جانے“ کاذکر کرتا ہے۔”جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے“ کی اذیت محسوس کرنا ”بندہ نواز“ افراد کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔میری بدنصیبی یہ رہی کہ صحافیانہ فرائض ادا کرتے ہوئے افغانستان،عراق اور لبنان جیسے ممالک کے حالات کا برسرزمین مشاہدہ کیا ہے۔معاشی اور سیاسی ابتری کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔انہیں بیان کرنا شروع ہوجاﺅں تو یہ کالم مکمل کرنے کے بجائے کسی مقام پر قلم ہاتھ سے پھینک کر کسی تاریک گوشے میں بیٹھ کر آنکھ سے ٹپکنے کو بے چین آنسوﺅں پر قابو پانے کی اذیت میں مبتلا ہوجاﺅں گا۔
وقت کے ساتھ ساتھ بے شمار اشیاءاور سہولتیں ہم انگریزی محاورے کے مطابق Taken for Grantedلیتے ہیں۔مثال کے طورپر ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کے حامل ہوتے ہوئے آپ جیب میں نقد رقم رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔جی کو ہمیشہ اعتماد رہتا ہے کہ رقم کی ضرورت ہوئی تو کسی بھی اے ٹی ایم میں گھس کر وصول کرلیں گے۔ سری لنکا تو خوفناک حد تک دیوالیہ ہوگیا تھا۔اس کے برعکس لبنان کی بابت یہ لفظ شاذ ہی استعمال ہوا ہے۔مذکورہ ملک کو کئی دہائیوں تک عرب کے تمام ملکوں کا ”حتمی بینک“ پکارا جاتا تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے مگر سفاکی کی حد تک بدعنوان سیاستدانوں کی سرپرستی میں وہاں کا بینکاری کا نظام کھوکھلا ہوناشروع ہوگیا۔بینکوں میں جمع ہوئی رقوم غیر ملکوں میں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اس سے قطعاََ بے خبررہی۔کئی مہینے گزر جانے کے بعد کھاتے داروں نے ”اچانک“ دریافت کیا کہ ان کے چیک پر لکھی رقم بینک فی الفور فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے۔ فرض کیا آپ نے بینک میں 20لاکھ روپے جمع کروارکھے ہیں۔ آپ اس میں سے پچاس ہزار روپے نکلوانے کے لئے چیک لکھنے سے قبل ایک لمحے کو بھی نہیں سوچیں گے۔لبنان میں مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اس تناظر میں سب سے زیادہ اذیت ریٹائرڈ بوڑھے محسوس کررہے ہیں۔انہیں زندہ رہنے کے لئے عمر بڑھنے کے ساتھ ابھرے کئی امراض کی تشخیص اور علاج کے لئے مہنگے ڈاکٹروںسے رجوع کرنا ہوتا ہے۔اپنے ڈاکٹر کی فیس اور ادویات کی خریداری کے لئے مگر ان کے دئے چیک ناکارہ تصور ہوتے ہیں کیونکہ بینکوں میں کیش میسر نہیں۔
دیگ کے ایک دانے کی طرح مذکورہ بالا حقیقت کا ادراک مجھے پاکستان کے بارے میں ”دیوالیہ“ کے خطرے کا ذکر کرنے سے روک دیتی ہے۔شتر مرغ کی طرح صحافی مگر حقائق سے نگاہ ہٹانے کے لئے ریت میں سردینے کی سہولت سے محروم رہتا ہے۔تجسس ہی صحافی کی حقیقی جبلت ہے۔ اسی باعث دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے علم معاشیات کی ڈگریوں کے حامل قریبی دوستوں سے ملاقات ہوجائے تو دیانتدارانہ عاجزی سے انہیں یہ سمجھانے کو مجبور کرتا ہوں کہ پاکستان دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا ہے یا نہیں۔یہ بات لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ ایسے دوستوں کی اکثریت دیوالیہ کے امکان کو ہرگز رد نہیں کرتی۔ان کے مابین اختلاف تاہم ”کب“ کا تعین کرتے ہوئے سنائی دیتا ہے۔
جن دوستوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے دو یا تین افراد ہی سیاست میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ مختلف کامیاب بینکوں یا کاروباری اداروں کے اعلیٰ سطح کے ملازم ہیں۔ اچھی زندگی گزارتے ہیں۔مجھ سے ملاقات ہوجائے تو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں ایک دو سوالات اٹھانے کے بعد ذاتی زندگیوں یا مشاغل سے جڑے معاملات پر گفتگو میں محو ہوجاتے ہیں۔میرے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ انہیں وطن عزیز کے بارے میں بری خبریں پھیلانے کا مرتکب تصور کروں۔چند مستثنیات کے سوا ان کا اس یا اس سیاسی جماعت سے والہانہ تعلق بھی نہیں۔
اپنے دوستوں سے گفتگو کے بعد میں اخبارات دیکھتے ہوئے امید باندھتا ہوں کہ ہماری وزارت خزانہ اور اس سے جڑے دیگر اداروں کے سرکردہ افراد ٹھوس دلائل کے ساتھ مجھے تسلی دیں کہ ہم دیوالیہ کی جانب ہرگز نہیں بڑھ رہے۔ڈار صاحب اس تناظر میں اکثر حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔جان کی امان پاتے ہوئے تاہم عرض کروں گا کہ ان کے بیانات عموماََ رعونت سے بھرپور سنائی دیتے ہوئے حرف تسلی کی صورت اختیار نہیں کرپاتے۔معاشیات کی مبادیات کے بارے میں قطعی نابلد ہوتے ہوئے میں ڈار صاحب کے بیانات پر اس کے باوجود اعتبار کرنا چاہوں گا۔پاکستان کا وزیر اعظم بھی لیکن ”پلان بی“ کی ”نوید“ سنائے تو جی دہل جاتا ہے۔”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ والا سوال اس کی وجہ سے جند چھوڑنے کو رضا مند نہیں ہوتا۔ یہ سوال گزشتہ ایک ہفتے سے مزید تنگ کرنا شروع ہوگیا ہے ۔اسلام آباد کے جس سیکٹر میں رہتا ہوں وہاں لوڈشیڈنگ کے دورانیے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔یہ سوچنے کو مجبور کرتے ہیں کہ ملک کے دیگر شہروں اور قصبات میں بجلی کی فراہمی کا کیا عالم ہوگا۔ میرے دل میں ذہن کو ماﺅف کرنے والے جو وسوسے بڑھ رہے ہیں ان سے نجات کے لئے لازمی ہے کہ موجودہ حکومت بھرپور انداز میں قابل اعتبار ماہرین معیشت کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کا آغاز کرے اور عام آدمی کو بالآخر کھل کر بتاہی دے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ سابقہ حکومت کو ایک برس گزرجانے کے بعد ان دنوں ہم پر نازل ہوئی ہر معاشی مصیبت کا ذمہ دار ٹھہرانا اب قانونِ تقلیل افادہ کی لپیٹ میں آنا شروع ہوگیا ہے۔ خدا را نئے خیالات متعارف کروائیں۔