اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزےر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان خود مختار ملک ہے، آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مان سکتے، پاکستان کے ساتھ جیو پولیٹکس ہورہی ہے، پاکستان کو بظاہر بلےک مےل کےا جا رہا ہے اور اس سطح پر لایا جارہا ہے ہم سری لنکا بنیں، ڈیفالٹ کریں اور پھر مذاکرات کریں، لیکن ہم سری لنکا نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف یہ چاہتا ہے ٹیکس چھوٹ نہ دی جائے۔ ہم ایک خود مختار ملک ہیں، ہمیں اتنا حق ہے کہ اپنے فیصلے خود کریں، ٹیکس چھوٹ نہیں دیں گے تو شرح نمو کیسے بڑھے گی؟، ریونیو نہیں آئے گا تو ملک کیسے چلے گا؟۔ سےنٹ کی مجلس قائمہ خزانہ کو اپنی ٹےم کے ہمراہ بجٹ، آئی اےم اےف پروگرام پر برےفنگ دےتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے حالیہ بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنیٰ نہ دیں، بطور خود مختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں، ہمیں پتا ہے کہاں سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس ہدف 7200 ارب سے بڑھا کر 9200 ارب روپے رکھا ہے، یہ ہدف ٹیکس چھوٹ کے علاوہ ہے، ٹیکس چھوٹ والے شعبوں سے کوئی بجٹ نہیں آ رہا، آئی ایم ایف کو اس پر اعتماد میں لیں گے۔ آئی ایم ایف ہو یا نہ ہو پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔ اب ایم ڈی آئی ایم ایف نے ایک دو ہفتے پہلے بیان دے دیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہورہا۔ پاکستان کو بظاہر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا بیرونی خسارے کا گیپ صرف 3 ارب ڈالر ہے، آئی ایم ایف 6 ارب ڈالر پر رکا ہوا ہے، جو غلط ہے۔ میں نے کہا کہ نواں اقتصادی جائزہ مکمل کریں پھر بجٹ شیئر کروں گا، آئی ایم ایف پاکستان کے قرض پروگرام کے بقایا 2 ارب ڈالر کھا گیا تو یہ افسوس ناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کو سعودی عرب سے 2 ارب، یو اے ای سے 1 ارب ڈالر کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس اربوں ڈالرز کے اثاثے ہیں ، پاکستان کا قرضہ 130 ارب ڈالرز پر ہے، آئی ایم ایف نواں جائزہ پروگرام ستمبر میں مکمل ہونا تھا، آئی ایم ایف مشن تین ماہ تک پاکستان نہیں آیا، میری کوشش تھی کہ نواں جائزہ پروگرام بحال ہو، ظاہر ہے کہ ایک ہاتھ سے تالی نہیں بچتی، نویں جائزہ کے مذاکرات نو فروری تک جاری رہے۔ روایات کے مطابق مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ بیان جاری کیا جاتا تھا۔ فروری سے اب تک پروگرام تاخیر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ آئندہ بجٹ آئی ایم ایف سے مشاورت سے نہیں بنایا، آئی ایم ایف کو کہا کہ نواں جائزہ مکمل کریں، آئی ایم ایف دسواں جائزہ پر مذاکرات شروع کرے، پھر آئی ایم ایف سے بجٹ پر بات ہوگی ۔ ہم آج بھی آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، مذاکرات ناکام نہیں ہوئے بلکہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ اسی ماہ مکمل ہوگا، 30 سال تک اس طرح کی ڈیل نہیں کی، آئی ایم ایف کو چھوٹی چھوٹی ٹیکس چھوٹ چبھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو آئی ٹی میں رعایت دینے پر پابندی عائد نہیں کرسکتے، اگر آئی ٹی میں روزگار نہیں بڑھائیں گے تو 0.29 فیصد شرح نمو پر رہیں گے، آئی ٹی کی ترقی سے نوجوانوں کو روزگار دینا چاہتے ہیں۔ اس سال آئی ٹی برآمدات 2.5 ارب ڈالر رہیں گی، آئندہ سال آئی ٹی کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ کہ آئی ٹی کی برآمدات کو آئندہ پانچ سال میں 15 ارب ڈالر تک لیکر جائیں گے، زرعی شعبے کو آئندہ مالی سال 2250 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے جبکہ رواں مالی سال 1750 ارب روپے کے زرعی قرضے اب تک جاری کئے جاچکے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر کیلئے پیکج سامنے رکھ لیں، اگر مزید گنجائش موجود ہے تو کریں گے۔ فری لانسر کیلئے کچھ مزید تجاویز کا جائزہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کی گئی، وہ ناقابل برداشت ہیں۔ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کی ہیں لیکن ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ سٹیٹ بینک پاکستان کا بینک ہے کسی عالمی ادارے کا نہیں۔ اولین ترجیح ہے جو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ بروقت کی جائیں۔ بانڈز سمیت کوئی ادائیگی تاخیر کا شکار نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ایسی ترامیم ہوئیں جو ریاست کے اندر ریاست کو ظاہر کرتی ہیں، یہ ترامیم سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کی طرف لے گئیں۔