کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے کیساتھ ستمبر2022میں ختم ہونے والے پروگرام کو پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے ستمبر2023تک توسیع کرانے کے باوجود پاکستان کوآئی ایم ایف سے ایک ڈالر بھی نہیں مل سکا جبکہ اس مدت کے دوران روپے کی جو قدرجولائی2022میں 204روپے تھی وہ اب بڑھ کر287 روپے پر آگئی،اس مدت کے دوران ترسیلات زر میں 3.8ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ برآمدات میں 3.5ارب ڈالر کی کمی ہوئی اور اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر میں 5.9ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ خدشہ ہے کہ شرح نمومنفی ہوجائے گی،اگر موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام ستمبر میں ختم کردیتی اور اس کے بعد آئی ایم ایف سے نئے قرضے کیلئے رجوع کرتی تومعاشی تباہی ہوئی وہ نہ ہوتی اور اگلے مالی سال کے دوران 7.5ارب ڈالر کے نئے قرضے کی آئی ایم ایف کو درخواست دی جاتی تو اس کیلئے جو شرائط اب پوری کرنی پڑ رہی ہیں وہ بھی نہ کرنی پڑتیں،اس پہاڑ جیسی غلطی سے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے،عوام کی تکالیف بڑھیں اور پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرات بھی دوچند ہوئے۔اس حوالے سے ملک کے معروف معاشی تجزیہ نگارڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ ستمبر میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف کے قرض کی مدت میں توسیع کے حصول کی پاکستان نے بہت بھاری قیمت ادا کی، 2022 سے جون 2023 تک کے عرصے میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا تھا لیکن فنڈ کے ساتھ اتفاق کردہ ''پہلے اقدامات'' کے نفاذ کی وجہ سے معیشت تباہ ہو گئی، پاکستان مالی سال 24 میں آئی ایم ایف سے 3 سال کے بڑے قرض کے لیے سخت شرائط پر رجوع کرے گا جس کا مطلب ہے کہ مالی سال 24 کے منظور شدہ بجٹ میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔