لاہور (خبر نگار) سپریم کورٹ بار کے زیر اہتمام لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء نمائندہ کنونش ہوا۔ عاصمہ جہانگیرگروپ سے تعلق رکھنے والے ایگزیکٹو کمیٹی کے اکثریتی دھڑے نے کنونشن کا بائیکاٹ کیا۔ ممبران ایگزیکٹو کمیٹی نے سپریم کورٹ بار کے صدر اور سیکرٹری کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے اجلاس سے 15 روز قبل نوٹس دینا ضروری ہے جو نہیں دیا گیا، باضابطہ آگاہ ہی نہیں کیا گیا اور تقریب کی منظوری بھی نہ لی گئی۔ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد شاہد زبیری نے خطاب میں کہا کہ تین چیزوںآئین، قانون اور عدلیہ کی آزادی پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ یہ حق اور باطل کی جنگ ہے۔ پارلیمان کا کہنا ہے کہ ہم سپریم ہیں، قرارداد پاس کرنے کے بعد آپ سپریم نہیں رہے، آزادی دماغ میں ہوتی ہے، ہم سپریم کورٹ کے ساتھ ہیں مگر فیصلے آپ نے کرنے ہیں۔ بھٹو نے جان دے دی مگر ڈیل نہیں کی، فوجی عدالتوں کو چیلنج کریں گے۔ دیکھیں گے کہ ہماری عدالتیں کتنی آزاد ہیں، آپ کو ہمت کرنا ہو گی، کل آپ اور میں نہیں ہوں گے۔ یا آپ کے نام ہمیشہ زندہ رہے گا یا گندگی کے ڈھیر میں پھینک دیا جائے گا۔ ہم فوج کے ساتھ ہیں، اللہ کے قانون کے بعد ملک میں آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کنونشن کی مخالفت کی گئی، پاکستان بار کونسل کے ممبران کہاں ہیں؟ وائس چیئرمین نہیں آئے؟ اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے ہم آپ کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس معاملے پر انٹرنیشنل کانفرنس بلائیں گے، آپ عوام کے ساتھ کھڑ ے ہوں، جس نے جرم کیا اسے سخت سے سخت سزا دینی چاہیے لیکن قانون کے مطابق ہم عدالتوں کے پاس جا رہے ہیں کہ شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وکلاء رہنما دو روز کے اندر رہا کئے جائیں ورنہ پیر کے روز سے تحریک چلائیں گے۔ گھٹن کے ماحول میں کنونشن امید کی کرن ہے ججوں پر اعتراضات کرنے والے ملٹری کورٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے؟ نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ربعیہ باجوہ نے کہا کہ یہ وہ وقت جب آئین اور قانون تباہی کے دہانے پر ہے۔ نو ٹو ملٹری کورٹس، ہم ان عدالتوں کی مذمت کرتے ہیں۔ صدر لاہور بار رانا انتظار حسین نے کہا کہ آئین اور قانون مذاق نہیں ہیں۔ قانون کی عملداری کیلئے وکلاء کا کردار کلیدی رہا ہے، ہم قوم کی توقعات پر اتریں گے۔ صدر اسلام آباد بار شعیب شاہین نے کہا کہ کیا آئین اور قانون ملک میں موجود ہے؟ ملک میںغیر اعلانیہ مارشل لاء لگا چکا ہے پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامد خان نے کہا جب بھی آئین پر حملہ ہوا ایوب، ضیاء الحق، مشرف دور میں وکلا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آئین ہے تو ہم ہیں اگر آئین نہیں تو نہ عدالتیں اور وکلاء کچھ نہیں ہیں۔ اس کو اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرنی چاہیے، سردار لطیف خان کھوسہ ے کہا ہم سر زمین بے آئین میں سانس لے رہے ہیں۔ آج جتنی گھٹن آج محسوس کر رہا ہوں اتنی زندگی میں نہیں کی، سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ نے کہاکہ ملک میں آئین اور قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ رول آف لاء کے لئے وکلاء کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے، ساری قوم وکلاء کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وزیر قانون کو پیغام دیتا ہوں ہم تقسیم نہیں ہوں گے۔ وکلاء آئین اور قانون کی پاسداری کیلئے رول آف لاء پر ہی رہیں گے۔ احمد اویس نے کہا کہ آرٹیکل دس اے کو بائی پاس کیا تو یہ آئین سے غداری ہو گی، ہم فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی مذمت کرتے ہیں، ہر دوسرے شخص پر غداری کا مقدمہ درج ہو رہا ہے کیوں؟ جسٹس ریٹا ئرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا، ہم ملٹری کورٹ کو ہم نہیں مانتے، وکلاء کو ان عدالتوں میں پیش ہی نہیں ہونا چاہیے۔