چھوٹی، بڑی اور جھوٹی جمہوریت

پوری دنیا کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو یہ راز کھل جائے گا کہ دورِ حاضر میں سکہ رائج الوقت ’’جمہوریت‘‘ ہے۔ ’’امریکہ بہادر‘‘ بھی سب کو یہی درس دیتا ہے کہ عوامی طاقت سے منتخب ہونے والی حکومت ہی ملک و ملت کے حقیقی معنوں میں نہ صرف مسائل سمجھتی ہے بلکہ ان کا حل تلاش کرنے کا ادراک بھی رکھتی ہے۔ اسی حوالے سے آمریت اور بادشاہت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اہل انگلستان تاج برطانیہ کو عزت ، تکریم حد سے زیادہ دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی برسوں پرانی روایات کے پاسدار ہیں لیکن مملکت و ریاست چلانے کے لیے عوامی رائے سے وزیراعظم منتخب کرتے ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کی بنیاد’’بلدیاتی‘‘ نظام بھی موجود ہے جبکہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کا علمبردار’’ امریکہ بہادر ‘‘ اپنے مفاد اور اتحادیوں کی کامیابی کے لئے من مرضی پر آمریت اور بادشاہت بھی تسلیم کر لیتا ہے۔ لیکن اتفاق رائے اسی بات پر ہے کہ ’’لنگڑی لولی‘‘ جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے کیونکہ منتخب حکومتیں آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر ’’عوام اور ریاست‘‘ کی ترقی اور خوشحالی کی راہیں نکالتی ہیں۔ ’’پارلیمنٹ اور ایوان‘‘ کے ذریعے حالات و واقعات کے مطابق آئینی ترامیم بھی کرتی ہیں تاکہ تمام اداروں کو بلا امتیاز استحکام مل سکے اور یہ ادارے اجتماعی مفادات کے لیے بغیر کسی مداخلت کے خدمات انجام دے سکیں۔ لیکن اس ساری کارروائی میں ایک ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ نامی رکاوٹ بھی پائی جاتی ہے۔ دنیا کی کسی بھی جمہوریت کا تجزیہ کریں یہ ’’چودھری اور چودھراہٹ‘‘ اپنا کام اور طاقت استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس انتظامی کارروائی میں وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کی مشاورت بھی شامل ہوتی ہے۔ ’’امریکہ بہادر‘‘ کا صدارتی نظام ’’پینٹاگون اور سی آئی اے‘‘ سے بالا تر ہرگز نہیں، لیکن مضبوط نظام اور سخت گرفت کے باعث اس انداز میں شور شرابہ نہیں ملتا جس طرح ترقی پذیر ممالک میں پایا جاتا ہے۔ تاہم پچھلے صدارتی الیکشن میں صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے امریکی الیکشن میں دھاندلی کے الزام اور وائٹ ہائوس پر حملے سے نئی تاریخ رقم کر دی تھی۔ وہاں ’’پینٹاگون، سی آئی آے اور مضبوط نظام‘‘ کی موجودگی میں ملزمان کو سزا بھی مل گئی اور چند دنوں میں تمام تر مشکلات کے بعد معاملہ ختم ہو گیا۔ اب پھر ٹرمپ اور جوبائیڈن مدمقابل ہیں۔ الزامات، سکینڈلز اور توڑ جوڑ کے مراحل جاری ہیں۔ ایسے میں بھی چھوٹی، بڑی اور جھوٹی جمہوریت کی بحث جاری ہے لیکن اس بحث میں برصغیر انتہائی اہم ہے کیونکہ اس خطے میں تقسیم ہند کے بعد تین ممالک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک حقیقت ہیں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ دار ہے۔ اس مرتبہ بھی دس کروڑ ووٹرز رجسٹرڈ تھے۔ بہرحال انکے الیکشن اور ہمارے سسٹم میں فرق ہے۔ جمہوریت کا حسن، اختلاف، احتجاج دھرنے، لڑائی جھگڑے اور طاقت کا استعمال بھی موجود ، لیکن انتخابات مرحلہ بہ مرحلہ ہوئے، نہ ای۔وی۔ایم کا پھڈا ، نہ ہی سسٹم بیٹھا اور تین ماہ میں بھی کوئی یا کسی پارٹی کا کارکن منظر عام پر نہ آیا کہ پولنگ ایجنٹ اور اعلان کردہ نتائیج مختلف ہیں۔ یہی نہیں بنگلہ دیش میں بھی انتخاب دیکھیں ہر ممکن اختلاف ، احتجاج اور مقابلہ بازی کی فضاء میں پارلیمانی جمہوریت جاری و ساری۔ حسینہ واجد ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن چکی ہیں۔ کیا سمجھتے ہیں کہ وہاں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ آسمانی مخلوق نہیں ہے؟ بالکل ہے۔ بنگلہ دیش نے اپوزیشن اور مخالفین کو پوری طاقت سے دیوار کے ساتھ لگایا۔پاکستان کا نام لینے والوں کو تختہ دار تک پہنچایا۔ وہاں بھی پاکستانی رشتہ داری میں ایک سے زیادہ مرتبہ مارشل لاء لگا، لیکن وہاں کے لوگوں نے حالات اور دنیا سے سبق سیکھا، اس میں ’’جوڈیشل مارشل لا‘‘ نے بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ہمارے ہاں بھی یہ فارمولا آزمانے کی کوشش کی گئی ، عدلیہ نے تو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے گھڑ سوار سے پیار کرتے ہوئے ’’گڈ تو سی یو‘‘ کا نعرہ مستانہ لگایا لیکن حالات نے ساتھ نہیں دیا اور چوکس سیاستدان مفادات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو گئے، ورنہ منصوبہ تو لائف ٹائم ہی تھا۔ حقیقی آزادی کے فلک شگاف نعروں میں ایسی مثال قائم ہو جاتی کہ پارلیمانی نظام کو رخصت کر کے صدارتی نظام ایک مرتبہ پھر سے مسلط ہو جاتا، ایسا ہوتا تو کیا ہوتا۔ اس کا تصور کیاجا سکتا ہے لیکن جو ہوا وہ تو سامنے ہے۔ الیکشن رزلٹ، دھاندلی، فارم 45،47کا مسئلہ ، 9مئی کے مقدمات، کسی بات کا مہینوں گزرنے کے باوجود کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں ہو سکا۔ یقینا یہ نظام کی کمزوری ہے ورنہ یہ سب کچھ بڑی جمہوریت بھارت، چھوٹی جمہوریت بنگلہ دیش میں بھی ہوا۔ بھارت میں بھی میڈیا نے ہنگامہ برپا کئے رکھا کہ ’’اب کی بار، چار سو پار‘‘ لیکن نہیں ہوا، پاکستان میں اخبارات اور چینلز نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا ، وزیراعظم نواز شریف چوتھی بار پھر بھی وزیراعظم نہیں بن سکے۔ دراصل دنیا بدل رہی ہے بلکہ بدل چکی ہے اسی لیے اس نے بہت کچھ سیکھ لیا، ہم نے نہ کچھ سیکھا نہ سیکھنے کو تیار ہیں۔ البتہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر استعمال سیکھ لیا ہے لہٰذا پابند سلاسل ہوتے ہوئے بھی وہ قابو سے باہر ہیں۔ انکے استادوں نے ایسے گر سکھائے کہ سسٹم بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ’’ جھوٹی جمہوریت‘‘ کہنے والے چھوٹی اور بڑی جمہوریت کے حالات و واقعات سے کچھ سیکھیں۔ ملک و ملت کے لیے معافی نہیں تو کم از کم غلطی تسلیم کر کے مستقبل کے لیے ایسے راستے نکالیں کہ جس سے ترقی، خوشحالی اور استحکام پاکستان کی راہ ہموار ہو سکے۔ ہماری اور ہم سب کی پہچان پاکستان۔ انا ، ضد اور سخت موقف سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ادارے ہمارے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے انہیں مضبوط کریں تاکہ سب اپنی اپنی حدود میں رہ کر خدمت انجام دے سکیں۔ چھوٹی ، بڑی اور جھوٹی جمہوریت کے حالات ایک سے ہیں۔ نظام کو مضبوط کریں ہمارے نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ بھی سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں اقتدار کیلئے نہ صرف ان کا گھوڑا استعمال کیا بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد انہی سے لڑائی مول لے لی۔ بلا امتیاز سب ذمہ دار حالات کی نزاکت سمجھیں اور الزامات کی بجائے اپنے انداز بدلیں۔ جمہوریت چھوٹی، بڑی اور جھوٹی ہرگز نہیں ہوتی، ہم خود چھوٹے،بڑے اور جھوٹے ہیں۔ہم بدلیں گے تو نظام بھی بدلے گا۔

ای پیپر دی نیشن