معزز قارئین ! ’’باب اْلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’حضور پْر نْور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے فرمایا کہ ’’جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اْسے سواری میسر ہو، جو بیت اللہ تک اْسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی مرے یا نصرانی ہو کر اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کیلئے بیت اللہ کا حج فرض ہے، اْن لوگوں پر جو اْس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں!‘‘۔
…٭…
’’ شریعت کے مطابق!‘‘
شریعت کے مطابق بیت اللہ (کعبہ) کی زیارت کرنے کو حج کہا جاتا ہے، جو ہر صاحبِ نصاب شخص (مرد اور عورت) پر فرض ہے۔ اِس وقت دْنیا کے تمام مسلمان ’’عازمینِ حج‘‘ (حج کا قصد یا ارادہ کرنے والوں) کو بہت دْکھ ہو رہا ہوگا؟ جو ’’صاحبانِ نصاب اشخاص‘‘ (خواتین و حضرات) اپنی یا اپنے خاندان کے سربراہوں کی نیک کمائی سے حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں لیکن وطن عزیز میں عرصہ دراز سے صدور، وزرائے اعظم،گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور بھاری بھاری تنخواہیں لینے والے افسران جب سرکاری خرچ پر حاجی یا حاجیہ بن جاتے ہیں تو پاکستان کے مفلوک اْلحال عوام کو تو بہت دْکھ ہوتا ہوگا؟
…٭…
’’حج بدل !‘‘
احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے مطابق جب کبھی کوئی مسلمان صاحب ِ استطاعت ہونے کے باوجود مخصوص بیماری یا لاغری کی بنا پر خود بیت اللہ شریف تک جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ کسی دوسرے کو اپنا نائب بنا کر بھیجتا ہے اور اْس کو پورا خرچ دیتا ہے تاکہ وہ (آمر) کی طرف سے حج کر کے آئے، یا کبھی آدمی زندگی میں حج فرض ہونے کے بعد باوجود حج نہیں کر پاتا اور مرنے سے قبل وصیت کر جاتا ہے۔
…٭…
’’حضرت غوثِ اعظم! ‘‘
معزز قارئین! رْوحانیت کو فروغ دینے کیلئے مَیں حضرت غوثِ اعظم سیّد عبداْلقادر جیلانی کے دو شعر پیش کر رہا ہْوں۔ آپ نے فرمایا کہ…
’’تْرا، یک حج بود سالے، دِلے در کْوئے یار ِما!
گزارد، ہر زماں حجے کسے، کو عاشق زار ست!‘‘
…٭…
یعنی۔ ’’ اے بندے ! تیرے لئے تو سال میں صرف ایک حج ہوتا ہے لیکن جو عاشقِ زار ہے اْس کیلئے تو ہمارے یار کا کْوچہ (گلی) میں ہر لمحہ حج ہوتا رہتا ہے‘‘۔
…٭…
’’طوافِ کعبہ کْن حاجی مرا، بگذار در کْوئیش!
کہ حج اکبر عاشق، طوافِ کْوئے دِلدار ست!‘‘
…٭…
یعنی۔ ’’ اے حاجی ! تْم کعبے کا طواف کرتے رہو کہ ’’تمہارے حج کیلئے یہی ضروری اور فرض ہے لیکن اِسکے برعکس مجھے میرے محبوب کے کْوچے میں رہنے دو۔ عاشق کے لئے تو کوچہ دیدار کا طواف کرنا ہی اْس کا حجِ اکبر ہوتا ہے‘‘۔
’’خواجہ غریب نواز! ‘‘
خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند حضرت مْعین اْلدّین چشتی اجمیری نے بھی اپنے انداز میں فرمایا کہ …
’’ز اعتباراتِ تفاوت نکْند اصل مْراد!
گر یکے کعبہ وآں دَیر مْغاں می آید!‘‘
…٭…
ترجمہ:۔ ’’یہ اعتبار و یقین کا سبب ہے کہ کوئی کعبے میں آئے یا بْت خانے میں۔ اْس کے توحیدی ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے‘‘۔
’’حضرت سْلطان باھو !‘‘
قادریہ سلسلہ کے ولی ، فارسی اور پنجابی کے نامور شاعر حضرت سْلطان باھو نے اپنے پیر و مْرشد کی عظمت بیان کرتے فرمایا کہ …
’’مْرشد دا دیدار ہے باھو،
جیوں لکھّ کروڑاں حجّاں ہو!‘‘
…٭…
یعنی۔ ’’ اے باھو! اپنے پیر و مْرشد کی زیارت لاکھوں کروڑوں، حج کرنے کے برابر ہے‘‘۔
’’بابا بْلھّے شاہ‘‘
قادریہ سلسلہ کے ولّی قصور کے بابا بْلھّے شاہ نے فرمایا تھا کہ…
’’حاجی لوک مکے نوں جاندے
میرا رانجھا ماہی مکّہ!‘‘
…٭…
معزز قارئین! رانجھا سے بابا بْلھّے شاہ کا مطلب کسی بھی روحانی مْرشد سے تھا۔
’’علاّمہ اقبال!‘‘
علاّمہ اقبال نے اپنی نظم ’’شکوہ‘‘ میں ارکانِ اسلام کے پابند مسلمانوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے گِلہ کِیا تھا کہ
’’تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے!
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے!‘‘
…٭…
’’ قائداعظم اور قربانی! ‘‘
(لوہانہ راجپوت) بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح اپنے آبائو اجداد کے حوالے سے القادری تھے، جنہوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد فرمایا تھا کہ ’’میرا یہ پیغام جس مسلمان تک پہنچے، وہ اپنے دِل میں عہد کرے کہ ضرورت پڑنے پر وہ پاکستان کو اسلام کی پشت پناہ اور دْنیا کی ایک عظیم قوم بنانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیگا۔ مسلمان کیلئے اِس سے بہتر ذریعہ نجات نہیں ہوسکتا کہ ’’وہ حق کی خاطر شہید ہو جائے!‘‘۔
’’ حج تے نالے پیار!‘‘
معزز قارئین ! ستمبر 2016ء کے اوائل میں میرے مرحوم دوست تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری محمد اکرم طور کے فرزند ،اْردواور پنجابی کے نامور شاعر اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رْکن برادرِ عزیز سعید آسی نے حج بیت اللہ کا ثواب حاصل کِیا تھا تو اْنکے اعزاز میں 22 ستمبر کو ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید اور 20 نومبر کو تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان کی طرف سے الگ الگ دو تقاریب کا اہتمام کِیا گیا تھا۔ افسوس کہ ’’چودھری ظفر اللہ خان ?2 اپریل 2021ء کو اور سیّد شاہدرشید 12 مارچ 2022ء کو خْلد آشیانی ہو گئے۔ بہرحال بہت ہی پاکیزہ ماحول تھا۔ گلاسگو کے ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی نے تو محفل کو اور بھی پاکیزہ اور یادگار بنا دِیا تھا۔ 23 نومبر 2016ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’حج تے نالے پیار!‘‘ دراصل یہ اْس پنجابی ضرب اْلمِثل کا توڑ ہے کہ ’’حج تے نالے وپار!‘‘
’’حجاج اور اندازِ شعراء!‘‘
معزز قارئین ! مختلف شعرا ء نے اپنے اپنے انداز میں حجاج کو دیکھا اور بیان کِیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
طرفِ کعبہ نہ جا حج کے لیے ناداں ہے!
غور کر دیکھ کہ ہے خانہ دل مسکن دوست!
(امیر مینائی)
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے!
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے!
(اکبر الہ آبادی)
اس حج میں وہ بت بھی ساتھ ہوگا!
یہ سچ ہے ریاض تو گئے ہم!
(ریاض خیرآبادی)
٭…٭…٭
’’سرکاری خرچ پر حْجّاج۔ کون کون خوش نصِیب؟‘‘
Jun 16, 2024