مودی حکومت دو چار ماہ کی مہمان

پڑوسی ملک بھارت کے عام انتخابات جن کا  19 اپریل سے یکم جون 2024 ء تک انعقاد ہوا ، 2019 ء کے بھارتی انتخابات کا ریکارڈ توڑ کر دنیا کا سب سے بڑا الیکشن  مانا گیا ہے ،جو کہ 19951-52 ء کے عام بھارتی انتخابات کے علاوہ بھارت کے سب سے طویل دورانیے کے انتخابات تھے ، جن کا دورانیہ 44 دنوں پر محیط تھا ، دنیا کے ان سب سے بڑے انتخابات میں بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 96 کروڑ شہری ووٹ ڈالنے کے اہل تھے ،بھارتی دستور کی 104th آئینی ترمیم میں اینگلو انڈین کے لئے مختص کردہ دو نشستوں کو ختم کر دیا گیا تھا ۔
   دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں متنازع بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی جو کہ پہلے بھی دو مرتبہ بھارت کے ویر اعظم رہ چکے ہیں اب تیسری بار بھی بھارت کی متعدد سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ، لیکن اس مرتبہ ان کی ذاتی اور ان کی پارٹی کی مقبولیت میں ایک حد تک کمی دیکھی گئی ہے ، عام انتخابات  میں بھارتی عوام نے جس فہم و فراست کے ساتھ حقِ رائے دہی کا استعمال کیا ، اس سے بھارتی ماہرین کی زبان بند ہو گئی جو کہ مودی ازم کا پر چار کر رہے تھے ،عالمی سطح پر بھی مودی کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو گذشتہ  ادوار میں تھی ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت سے سوال کرنے والے صحافیوں اور دیگر افراد کو ہراساں کیا جاتا رہا  ، دوسرا نریندر مودی کی مسلمان دشمن پالیسیاں اندرون بھارت اور بیرون بھارت یکساں ہیں بھارت غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے اسرئیلی افواج کو ڈرون اور میزائل ادانی گروپ کے توسط سے سپلائی کرتا ہے ،  جو کہ مودی کی مسلمان دشمنی کا واضح ثبوت ہے ، دوسری طرف  اسرائیل نے  بھارتی میزائلوں سے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں پرحملے کئے جس کے نتیجے میں 40 معصوم فلسطینی شہید اور 100سے زائد زخمی ہوئے ، شقیق القلب نریندر مودی کا بھارت سے باہر مسلمانوں پر حملے کروا کراسلام فوبیا کے شکار ممالک کی خوشنودی حاصل کر رہا ہے لہذا اسرائیل سے بھارت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے فلسطین کی جنگ ایک خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے ، ایسی صورتحال کے پیش نظر دفاعی تجزیہ کاروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ جنگ سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
2024  ء کے انتخابات میں مودی کی مسلم دشمنی کی وجہ سے بی جے پی کی مقبولیت کم ہوئی ہے، اس لئے نئی اتحادی حکومت کے 71 وزراء نے بھی مودی کے ہمراہ حلف اٹھایا ، جن میں 30 کے قریب کابینہ وزراء اور پانچ آزاد ممبران کے علاوہ  36 وزرائے مملکت ہوں گے ،الیکشن سے پیشتر اور الیکشن کے دوران پیشگوئیوں سے مودی ازم کو خوب ہوا دی گئی لیکن اس کے بر عکس مودی اور ان کی جماعت کو ماضی کی طرح واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ،جس سے مودی ازم کو دھچکا لگا، نریندرمودی کے حلف اٹھانے کی تقریب میں انتخابات سے قبل تمام پولز اور سروے نریندر مودی کو مقبول رہنما کے طور پر نمایاں کر رہے تھے ، تقریب میں کسی نمایاں عالمی رہنمائوں نے شرکت نہیں کی ، حیران کن بات یہ ہے کہ مودی  امریکہ ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کو بھارت کے قریبی اور معتمد دوست قرار دیتے تھے ، ان ممالک کے سربراہوں نے بھی شرکت نہیں کی ،ہندوستان جو کہ روس کا ایک طویل عرصہ اتحادی رہا اس نے بھی شرکت نہیں کی جس سے عالمی سطح پر مودی کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کے دعوئوں اور دوستی کا بھانڈہ پھوٹ گیاہے۔
حالیہ الیکشن کے نتیجے میں ہندوستان کی حکومت معاشی بحران کی دلدل میں دھنستی دکھائی دیتی ہے ، نریندر مودی اگر اتحادیوں کے مطالبات کو مانتے ہیں تو ملکی خزانے پر شدید بوجھ پڑے گا جو کہ ہندوستان کے خزانے کے ترازو کی یک طرفہ تنزلی ہو گی، بھارت کی سالانہ شرح کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت مہنگائی چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے ، جو کہ مرکزی بینک کے طے کردہ ہدف سے چار فیصد زیادہ ہے ، اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اب بھی زیادہ ہونے کے سبب بے روگاری اور خارجہ تعلقات مودی کی مخلوط حکومت کے لئے مسائل کا انبار لگائے ہوئے ہیں ۔ الیکشن سے پیشتر نئی  مخلوط حکومت کی تشکیل کے دوران مذاکرات میں اتحادیوں نے اپنی ریاستوں کے لئے اضافی فنڈز اور وفاقی کابینہ میں عہدوں کا مطالبہ کیا تھا ، بیہار کی جنتا دل متحدہ اور ریاست آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی نے اپنی ریاستوں کے لئے اضافی فنڈ کے علاوہ خصوصی درجہ دینے  کے دیرینہ مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں ، ایسے حالات  میں جب کہ مرکزی بینک کے ہدف سے زیادہ مہنگائی نے سر اٹھارکھا ہے، لگتا ہے کہ مودی کا تیسرا دور حکومت بھارت کی معیشت کو ڈبو دے گا ۔
 مودی کا تیسری بار بھارت کا وزیراعظم بننا ایک غیر معمولی قصہ ہے جو کہ بھارت کے خزانے پر بوجھ بنے گا ، سر دست مودی نے ا تحادیوں پر انحصار کر کے حکومت تو بنا لی لیکن اس حکومت کو قائم  رکھنا اتحادیوں پر منحصر ہوگا ، جبکہ بی جے پی میں اختلافات شدید حد تک بڑھ گئے ہیں ، اتر پردیش اور بنگال کی نامور سیاسی شخصیات  جو کہ اس وقت حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں ، وہ کانگریس میں شامل ہونے جارہی ہیں ،  لہذابھارت کے سیاسی جوتشی مودی حکومت کو دو چار ماہ کی مہمان سمجھتے ہیں ۔
 دوسری طرف سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نریندر مودی کے جھوٹے وعدوں کی ایک لمبی فہرست ہے ایسے وعدے جو کبھی بھی قابل عمل نہیں ہو سکتے جیسا کہ ہندوستان کے سارے دریائوں کو ایک دوسرے سے ملانا، اور پورے ہندوستان میں بُلٹ ٹرین چلاناجب کہ دنیا میں بُلٹ ٹرین کی ناکامی خسارے کی صورت میں سامنے آئی ہے ، صرف جاپان میں بُلٹ ٹرین کامیابی سے چل رہی ہے جو کہ ٹوکیو کے ساڑھے تین کروڑ شہریوں کو وقت کی بچت کے ساتھ سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے ،مودی کے ایسے ناقابل عمل جھوٹے وعدوئوںاو رمودی کی اسرائیل کی حمایت سے عالم اسلام اور بھارت میں مودی کے خلاف نفرت نے جنم لیا ہے ۔
  
      

ای پیپر دی نیشن