وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 30کھرب روپے سے زائد تخمینے کا بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کردیا۔ سندھ کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 959 ارب روپے ہوگا، ترقیاتی بجٹ میں جاری شدہ ترقیاتی اسکیمز بھی شامل ہیں۔صوبائی بجٹ میں 32 ارب روپے محکمہ تعلیم اور 18 ارب روپے صحت جبکہ محکمہ توانائی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے انگریزی زبان میں بجٹ پیش کرنا حیران کن ہے۔مراد علی شاہ کی طرف سے یہ بجٹ پاکستان کے لوگوں خصوصی طور پرسندھ کے عوام کو سنایا جانا تھا یا بجٹ کا عالمی سطح پر پرچار کرنا تھا؟ سندھ اسمبلی کے ارکان بہت زیادہ کوالیفائیڈ ہو چکے ہیں تو پھر بجٹ پربحث بھی انگریزی میں ہی کرا لی جائے۔سندھ کے بجٹ کو متوازن اور ٹیکس فری قرار دیا جا رہا ہے تاہم کچھ ٹیکس عائد بھی کیے گئے ہیں۔15 سو سے 3 ہزار سی سی امپورٹڈ گاڑیوں پر 45 ہزار روپے تک لگڑری ٹیکس ہوگا۔اس کے علاوہ ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سی ریسٹورینٹ پرادائیگی پر5فیصدکم ٹیکس لیا جائے گا۔ان ٹیکسوں سے عوام کی زندگی پر زیادہ منفی اثر نہیں پڑنے والا۔وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں کہا کہ گریڈ 1 سے 6 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ گریڈ 7 سے 16 تک ملازمین کی تنخواہیں 25 فیصد تک بڑھیں گی اورگریڈ 17 تا 22 کیلئے تنخواہ 22 فیصد بڑھے گی۔ سندھ میں کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بجٹ بھی عوام دوست قرار دیے جا رہے ہیں۔یقینی طور پر صوبے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عوام اسی وقت سکھ کا سانس لیں گے جب مرکزی بجٹ بھی عوام دوست ہوگا۔جس طرح کا وفاقی بجٹ سامنے آیا ہے اس سے مہنگائی کا ایک اور طوفان اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جو کچھ آئی ایم ایف کی طرف سے کہہ دیا گیا اس پر عمل کر دیا گیا۔جن سے قرض لیتے ہیں ان کی بات ماننا مجبوری ہوتی ہے لیکن یہ عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔وفاقی بجٹ کی ابھی منظوری ہونی ہے بہتر ہے ایسی تجاویز پر عمل نہ کیا جائے جس سے عوام کی زندگی مزید اجیرن ہوسکتی ہو۔بجٹ سے پہلے مرکز اور صوبوں کے مابین عوام کو ریلیف دینے کے لیے بامقصد کوارڈینیشن ہونا چاہیے۔اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس تو بجٹ سے قبل ضرور ہوتا ہے لیکن اس کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہی رہی ہے۔ اس اجلاس کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔