تحریر:۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
ایک طرف گرمی کی شدت و حدت اور دوسری طرف آئی ایم ایف کے تیار کردہ بجٹ کی قیامت خیزی۔۔کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور! بجٹ نہیں الفاظ کا گورکھ دھندہ۔۔جھوٹے اعداد و شمار کی جادو گری اور زندہ انسانوں کا لہو نچوڑنے والا ایک شکنجہ ہے۔
حکمران طبقہ اور اشرافیہ نے سارابوجھ غریب عوام اور تنخواہ دار طبقہ پر ڈال دیا ہے۔اور تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کے مصداق اپنے دامن پر ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دی۔
بجٹ کی بنیاد سودی معیشت پر رکھی گئی ہے۔بجٹ کی سب سے بڑی مد 9775ارب روپے سود کے ہیں۔جس معیشت کے خلاف اللہ اور رسول اللہ ؐ کی طرف سے علان جنگ ہو۔وہ کیسے پھل پھول اور ترقی کرسکتی ہے۔بجٹ غریب عوام کے لئے صرف مہنگائی،بے روز گاری اور حالات کی تلخی کے پیغام کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بجٹ کے چند اہم اور ہلاکت خیز پہلو حسب ذیل ہیں۔
38کھر ب (ارب نہیں) روپے کے اضافی ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔یہ00 85ارب روپے کے خسارہ کا بجٹ ہے۔جی ایس ٹی اور سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔تنخواہ دار طبقہ کے سلیب بدل کر 75ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس 5فیصد بحال ہوا اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو 60روپے فی لٹر سے بڑھا کر 80روپے فی لیٹر کردیا گیا۔زرعی مصنوعات کو رعایت دینے کی بجائے زرعی مداخل،بیج کھاد ادویات،ٹریکٹر وغیرہ پر مکمل سیلز ٹیکس بحال کردیا گیا۔خوراک،ادویات پر بھی 10فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔سمال،میڈیم انڈسٹری کو حاصل چھوٹ ختم کردی گئی۔کھانے پینے کی اشیاء پر سیلز ٹیکس چھوٹ کا بھی خاتمہ ہوا۔450ارب روپے کی چھوٹ کو ختم کیا گیا۔
برآمدات کی آمدن کو جو مراعات حاصل تھیں انہیں ختم کرکے عام شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا۔گویا کہ برآمدات کی مکمل حوصلہ شکنی شروع کی گئی۔تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافہ کی تجویز خوش آئند ہے۔لیکن پنشن یافتہ بزرگ اور زیادہ ضرورت مند طبقہ کے لئے صرف 15فیصد اضافہ تجویز ہوا۔نیز بیٹی کے لئے پنشن بھی ختم کردی گئی۔
قرضے ہی قرضے اس بجٹ کا عنوان ہے۔ملکی قرضے بڑھ کر 67ہزار ارب روپے ہوچکے ہیں۔کمرشل بنکوں سے لئے جانے والے قرض پر 22فیصد شرح سود ادا کی جارہی ہے۔یہ ظالمانہ سود عوام کی ہڈیوں سے نچوڑا جائے گا۔توانائی کے بحران کے خاتمہ کو آئندہ سال پر ملتوی کردیا گیا ہے۔Ippsکو ظالمانہ ادائیگیاں جاری رہیں گی۔ہائڈرو،سولر،ونڈ انرجی کا کوئی پروگرام سامنے نہیں آیا۔تعلیم،صحت،امن عامہ وغیرہ کے موضوعات کا خانہ بھی خالی ہے۔
بجٹ کا پیغام یہ ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی،عیاشی،پروٹو کول،لوٹ مار،اللے تللے جاری ہی نہیں رہیں گے بلکہ زیادہ شدت اختیار کریں گے۔دوبئی لیکس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا۔ایف بی آر کی زبان بند رہے گی۔مرکزی حکومت کی 90ہزار گاڑیوں کا پٹرول غریب عوام ادا کرتے رہیں گے۔اشرافیہ ایک دوسرے کی محافظ اور آئی ایم ایف اور امریکہ ان سب کا محافظ ہے۔
٭٭ ٭٭ ٭