وفاقی میزانیے کے بعد بابا کرمو سے بجٹ پر تبصرہ سننے گیا۔ بابا کرمو کھانا پکا رہے تھے اور ساتھ یہ گیت گنگنا رہے تھے،
بتا یہ دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے
کہیں خوشی کہیں غم یہ کیسی فاقہ مستی ہے
سلام کیا اور پوچھا 12جون 2024 کوجو بجٹ پیش ہوا ہے آپ اسے کیسا دیکھتے ہیں؟کہا جس طرح سے اکثر ہم میں سے کھانا بھوک کی وجہ سے نہیں کھاتے ڈیوٹی سمجھ کر کھاتے ہیں۔اسی طرح یہ بجٹ بھی پیش کرنے والے عام آدمی کے لے نہیں بناتے اسے بنانے والے ڈیوٹی سمجھ کر بناتے ہیں ورنہ جو حالات عام آدمی کے ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بناتے تو ایسا بجٹ نہ بنتا؟ مگر کیا کیا جائے یہ بجٹ بنانے اور حکومت چلانے والوں کے بھی بس میں نہیں ہے لہذا یہ بجٹ ویسا بنائیں گے جیسا قرض دینے والے چائیں گے۔وہ جو کہتے ہیں وہی کچھ یہ کرتے ہیں۔ ایسا بجٹ بنانا یہ انکی مجبوری ہے۔پھر کہا عوام بھی مجبور ہیں وہ بھی وہ کچھ نہیں کرتے جو انکا مذہب انہیں بتاتا ہے جو انکا قانون بتاتا ہے۔ یہ بھی وخری ٹائپ کے بگڑے ہوئے لوگ ہیں۔یہ پیسے کیلئے سب کچھ کر گزارتے ہیں۔یہاں ناخواندہ اور پڑھے لکھوں میں کوئی فرق نہیں۔ سب پیسے کے پجاری ہیں،یہاں کا ان پڑھ دو نمبر کام خوشی خوشی کرتا ہے۔ہر چیز میں ملاوٹ کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ پڑھا لکھا بھی یہی کچھ کرتا ہے۔ وہ بھی جھوٹ بولتا ہے کرپشن کرتا ہے۔۔ پوچھا اگر آپ وزیر خزانہ ہوتے تو کیسا بجٹ بناتے۔ کہا پہلے تو میرا جیسا بندہ وزیر خزانہ بن نہیں سکتا دوسرا اگر بنانا ہی تھا تو ملک کا وزیراعظم بناکر پوچھ لیتے تو جواب دیتا۔اس پر سوری کیا کہا اگر آپ وزیراعظم ہوتے تو کیا کرتے۔ کہا میں غریبوں کے فون کی سمیں بلاک کرنے کے بجائے جن لوگوں کی جائدادیں ملک سے باہر ہیں۔ ان کی لسٹ بناتا، پھر ایسے لوگوں کو اسمبلی کا ممبر اور وزیر نہ بناتا۔ ایک ایک کے کان پکڑ واتا۔ لمبا لٹاتا۔ ملکی دولت واپس لاتا تو جان چھوڑتا۔ بے نظر انکم پروگرام بند کرتا اس رقم سے ہر سال کارخانے لگاتا جاب دیتا۔گداگروں کا خاتمہ کرتا ہے، مساجد سے مفت کھانا تقسیم کرواتا۔ مساجد کو تعلیمی ادارے بناتا۔جن کی جائدادیں ملک سے باہر ہیں۔ انہیں باہر جانے پر پابندی لگاتا۔ یہاں کی جائدادیں انکی قبضے میں لیتا قانون بدلواتا۔کرپشن ملاوٹ پر سزائے موت دیتا چوری پر جیل میں بامشقت قید دیتا، کسی سرکاری افسر کو گاڑی پٹرول گیس بجلی فری نہ دیتا۔ باہر جا کر رہنے والے سرکاری ملازمین کی پنشن مراعات بند کر دیتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکریاں نہ دیتا۔تمام اداروں میں سب کو ایک جیسی شلوار قمیض پہناتا۔ اردو زبان پر عمل کراتا ہے۔ قرض کے بغیر ملک چلاتا۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانا۔بحرحال وہ کچھ کرتا جو جواہر لا ل نہرو نے اپنے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔ پوچھا انہوں نے کیا کیا تھا؟بتایا جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا،اسکی نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے ، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے۔والد نے اسے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو انہوں نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی. جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا.۔جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے.بیٹے نے پوچھا; آپ مجھ سے خفا ہیں.؟ موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا: میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا.چھوٹے نہرو نے پوچھا؛پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا؟ والد نے بیٹے سے کہا صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں.دوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں. تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی جیسا ہونا چاہیے.تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے..چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں۔جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا.بابا کرمو نے کہا!!
ہمارا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے. پاکستان میں لیڈروں کا تعلق عموماً ایسے گھرانوں سے ہے جو ملکی خزانہ لوٹنے کے بعد غریبوں پر حکمرانی کرتے ہیں.۔ کہا اس لیے ہم ڈرٹی پالیٹکس کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں. یہ لیڈرسیاسی ورکروں کو پوچھتے نہیں اپنے خاندان کو نوازتے ہیں۔ رشتہ داریاں نبھاتے ہیں۔سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں مجبوری کے تحت ضرور کرتی ہیں لیکن ان لیڈروں کا لائف سٹائل ان کی باتوں سے میچ نہیں کرتی.۔ ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے ، کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے ، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے تمام وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما کیسے ہو سکتے.اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہتا ہو۔ جس کا ذاتی کردار فیملی لائف ماضی ٹھیک ہو۔ جیسے جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹ اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو اپنے کردار سے گرویدہ بنا لے.جیسے سابق ایرانی صدر احمدی نڑاد کی طرح دو دفعہ صدر رہنے کے بعد تہران کی یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کرتے رہے۔جیسے امریکی صدر باراک اوباما کی طرح صدارت سے فارغ ہو کر کرایہ کا مکان ڈھونڈتا پھرے۔ہماری قسمت میں ایسے لیڈر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ہماری عوام بھی ایسی نہیں ہے۔ اگر عوام نے اپنی بری عادات ترک نہ کیں تو ایسے ہی لیڈر اور بجٹ آتے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔بجٹ نہیں نظام بدلو پھر آؤ اپنے آپ کو بدلیں۔ اپنا کردار ٹھیک کریں۔