میٹھی چیزوں پر ٹیکس  

Jun 16, 2024

تزئن اختر

 حقیقت یہی ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے، اسی طرح کہا جاتا ہے کہ صحت دولت ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ایک صحت مند قوم بھی دولت مند قوم ہے اور جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنی قوم کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے۔ ہم دولت مند قوم ہیں، آئیے اسے پاکستان کے جاری مالی بحران کی روشنی میں دیکھیں۔ اگر ہم ٹھوس اور مائع الٹرا پروسیسڈ مصنوعات اور شوگری ڈرنکس پر ٹیکس بڑھا سکیں تو ہمارے دوہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، 1 صحت مند قوم جو کہ خود دولت ہے 2 اضافی محصولات کی پیداوار جو ملک کو دوبارہ دولت مند بنائے گی اور پاکستان میں موجودہ مالیاتی بحران سے نمٹنے میں مدد کرے گی۔پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن  پناہ نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے فنانس بل۔25 ۔ 2024 میں حکومت کو تمام ٹھوس اور مائع الٹرا پروسیسڈ مصنوعات اور شوگر ڈرنکس پر ایکسائز ٹیکس بڑھانے کے لیے کامیابی سے قائل کر لیا ہے۔  ان مصنوعات پر ٹیکسوں میں اضافہ ان کی کھپت اور اس سے منسلک صحت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی ہے۔ سگریٹ کے پیکٹوں پر "تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے" کا نشان بڑا کرو ا  نے کے بعد یہ  پناہ کی کامیابیوں  میں ایک اوراضافہ ہے۔وفد نے  چارجون کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ صدر پناہ  میجر جنرل (ر )سرجن مسعود الرحمان کیانی نے وفد کی قیادت کی جو ڈاکٹر نثار چیمہ ایم این اے، منور حسین، کنٹری کوآرڈینیٹر گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر اور ڈاکٹر واجد پر مشتمل تھا۔ وزیر نے عوام کی صحت کے عظیم مقصد کے لیے پناہ کی کوششوں کو سراہا اور بجٹ میں ضروری کام کرنے کا یقین دلایا۔اس کا مطلب ہے کہ اگر انڈسٹری وزارت خزانہ کو اس عزم سے دور نہ کر سکی تو بجٹ میں الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور شوگر ڈرنکس کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے جو عوام بالخصوص نوجوانوں کو ان بیماریوں پر مبنی اشیاء  سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

پناہ  نے اسی دن مقامی ہوٹل میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پری بجٹ سیمینار منعقد کیا جب وزیر خزانہ نے میٹنگ بلائی تھی۔ بہاولپور سے ممبر قومی اسمبلی محترمہ ماہ جبین امتنان، چترال سے محترمہ غزالہ اور ہری پور سے ڈاکٹر شائستہ جدون نے اجلاس میں شرکت کی۔اس موقع پر وزارت قانون کے مسٹر جاوید، ایف بی آر کے مسٹر خٹک، وزارت صحت کے مسٹر جنجوعہ بھی موجود تھے۔ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے نمائندے نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ وزیر خزانہ سے ملاقات کرنے والے وفد کے رکن ڈاکٹر واجد نے شرکاء کو انگریزی زبان میں میٹنگ کی تفصیلات سے آگاہ کیا جب کہ تمام مہمان پاکستانی تھے اورڈاکٹر واجد  جو معلومات شیئر کرنے والے تھے اسے قومی زبان میں واضح طور پر پہنچانا چاہیے تھا۔بہرحال انہوں نے بتایا اور جو ہم سمجھ سکے  وہ یہ تھا کہ وزیر خزانہ نے ہمارا کیس توجہ سے سنا اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ جیسا کہ انہوں نے کہا، وزیر خزانہ  پناہ کے وکیل بن گئے ہیں۔صدر پناہ میجر جنرل (ر )سرجن مسعود الرحمان کیانی  نے اپنے کلیدی خطاب میں چینی، گوشت، کوکنگ آئل سمیت خوردنی تیل کے صحت کے لیے نقصان دہ استعمال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو خواتین ان کا  استعمال 50 فیصد تک کم کر دیں۔ اس سے پیسے کی بچت ہوگی اور ساتھ ہی ان کے خاندان کی صحت بھی بہترہوگی۔
صدر پناہ نے پیکنگ میں آنے والے کھانے کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فوڈ پانڈا قسم کے سامان کو عوام سے دور رکھنا ہوگا۔خواتین ارکان پارلیمنٹ نے پناہ کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کا عہد کیا۔ انہوں نے پناہ  کے ساتھ اپنی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ تمباکو اور شوگر والے مشروبات کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی وقت چترال سے تعلق رکھنے والی محترمہ غزالہ نے کہا کہ ان کے علاقے میں بھنگ کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس نے کہا کہ ایک آسٹریلوی نے اسے بتایا کہ اس کے ملک میں دوا کی تیاری میں بھنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اس کی پیداوار تباہ ہو گئی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ محترمہ غزالہ کا تعلق کس پارٹی سے ہے لیکن پاکستان میں بھنگ کی پیداوار اور برآمد کا آئیڈیا عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت  لائی تھی لیکن یہ آئیڈیا مقبولیت حاصل نہ کرسکا حالانکہ مقبول ترین رہنما نے اسے پیش کیا کیونکہ پاکستان میں اکثریت بھنگ کو صرف منشیات کے طور پر ہی لیتی ہے۔
 دوسری بات یہ ہے کہ پناہ تمباکو کے استعمال کے بھی خلاف ہے اور  پناہ کے سیمینار میں ایک مہمان خصوصی بھنگ کی کاشت کی وکالت کر رہی تھیں، اس لیے  مہمانوں  نے ان کی بات حیرت سے  سنی اور ظاہر ہے کچھ کہ بھی نہیں سکتے تھے۔ویسے محترمہ ایم این اے نے بولنے سے پہلے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کا تعلق کے پی کے سے ہے اور کے پی کے پہلے ہی منشیات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر شائستہ جدون نے کہا کہ ہمارے ایبٹ آباد ریجن میں بہت سے تعلیمی نظام ہیں جن میں طلباء  زیادہ تر شکر والے مشروبات استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے اسکولوں کا دورہ کرنے اور طلباء  کو ان مشروبات کے صحت پر مضر اثرات سے آگاہ کرنے کا اعلان کیا۔مقررین کرنل ڈاکٹر شکیل احمد مرزا، ثناء  اللہ گھمن، ڈاکٹر صبا امجد نے کہا کہ پاکستان میں غیر متعدی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ 
ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ مرتے ہیں، روزانہ 300 سے زائد اعضاء  نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ 10 ملین لوگ پری ذیابیطس ہیں۔
مقررین نے متنبہ کیا کہ فوری پالیسی کے بغیر 2045 تک ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد 62 ملین تک بڑھ جائے گی۔ اگر ان بیماریوں کے خطرے والے عوامل کو تبدیل کیا جائے تو ان بیماریوں کے پھیلاؤ کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ٹھوس اور مائع الٹرا پروسیسڈ مصنوعات اور شوگری ڈرنکس استعمال کم سے کم کرنا پڑے گا، دیکھتے ہیں وزیر خزانہ بجٹ پیش ہونے تک اپنا وعدہ یاد رکھتے ہیں یا نہیں؟
اجلاس میں میڈیا اور پریس کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سٹیج سے مدعو کیا گیا لیکن کسی بھی میڈیا پرسن کو یہ موقع نہ مل سکا۔ مزید برآں اسٹیج پر بیٹھے ارکان پارلیمنٹ پناہ کے پیغام کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی سفارش کر رہے تھے۔ اس بات کو صحافیوں نے  محسوس کیا اور سخت ناپسند کیا۔

مزیدخبریں