پروفیسر حافظ محمد سعید....( امیر جماعة الدعوة پاکستان)
عصمت انبیاءکا مسئلہ ہمیشہ ہی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آج بھی یہ مسئلہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ انبیاءپر طعن وتشنیع‘ ان کی شخصیات کو، ان کی عزت ووقار کو مجروح کرنا اور اس حوالے سے اللہ کے دین کو نشانہ بنانا‘ عام لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنا‘ قرآن مجیدکے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا، اور قرآن کی بے حرمتی‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی‘ ان کی عزت وناموس پہ حملے‘ یہ آج کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے اپنے نبیوں کی عزت وناموس کی حفاظت کو بہت اہمیت دی ہے۔
انبیاءکی عصمت کا مسئلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے‘ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کو اللہ نے قرآن میں بہت سی جگہوں پر بار بار واضح کیا اور انبیاءکی عصمت کا خصوصی دفاع کیا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
یوسف علیہ السلام پر تہمت لگ گئی۔ عزیزِ مصرکی بیوی نے آپ علیہ السلام سے اپنی ناپاک خواہش پوری کرنا چاہی تو یوسف علیہ السلام نے کہا: ”معاذاللہ“ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ میں ایسی قبیح حرکت کے قریب نہیں جا¶ں گا۔یوسف علیہ السلام اپنی عصمت وعزت بچانے کیلئے دروازے کی طرف بھاگے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ دروازے بند ہیں صرف بند ہی نہیں‘ اس خاتون نے تالے لگا دیے تھے۔ لیکن یوسف علیہ السلام کا اللہ پر توکل ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کی پوری تدبیر کرتے ہوئے دروازوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ عزیز مصر کی بیوی نے بری نیت سے یوسف ؑ کی پیچھے سے قمیص پکڑلی تو قمیص وہاں سے پھٹ گئی۔
لیکن اللہ نے مدد کی اور دروازے کھل گئے۔
جب دونوں آخری دروازے سے باہر پہنچے تو سامنے اس عورت کا خاوند عزیز مصر کھڑا تھا۔ جب اس عورت نے اپنے خاوند کو دیکھا تو کہنے لگی: ”اے عزیزِ مصر دیکھ! یہ شخص کتنا بڑا مجرم ہے کہ اس نے تیری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ عزیز مصر کی بیوی کا الزام درحقیقت یوسف علیہ السلام کی ناموس پر حملہ تھا لہٰذا یوسف علیہ السلام کی ناموس کی حفاظت کےلئے فورا ً ہی اللہ کی مدد آگئی۔
اللہ کہتے ہیں‘ ہم نے اپنی تدبیر چلائی۔ عزیزِ مصر کے خاندان میں سے اس کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک بول اٹھا (کہا جاتا ہے کہ وہ بچہ تھا۔ بعض جگہ بڑی عمر کا لکھا ہے)
”اے عزیز مصر! بات سمجھنے والی ہے کہ اس شخص کے اخلاق کریمہ کو ہم جانتے ہیں۔ یہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر فیصلہ کرنا ہے تو ایک تجویز ہے۔ اگر یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو پھر یہ عورت سچی۔ اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو پھر یہ عورت جھوٹی اور یوسف علیہ السلام سچے ہیں۔
جب قمیص کو دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔
عورت کے خاوند نے اسے کہا‘ یہ ساری شرارت تیری ہی ہے۔
وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔ کہنے لگا: ”اے یوسف میری عزت کا سوال ہے۔ توکسی سے بات نہ کرنا۔ یہ ساری شرارت میری بیوی کی ہے۔ تیرا اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ پہلے یہ بات چند لوگوں تک محدود رہی‘ کسی کو پتہ نہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ بات پھیلنے لگی۔
مصر کی عورتیں آپس میں کہنے لگیں‘ یہ کیسی عورت ہے۔ عزیز مصر کی بیوی ہوکر اپنے ہی غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے۔ اس کا دماغ خراب ہے۔ اس کو Status کا ہی پتہ نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا گیا خواب کی تعبیر بتانے کیلئے جب حاکم مصر کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ سے رہائی کا پروانہ پہنچا تو حاکم مصر کو انہوں نے پیغام بھیجا کہ میں ایسے باہر نہیں آ¶ں گا۔ پہلے میرے اوپر لگائے گئے الزام کا فیصلہ کرو۔ جنہوں نے مجھ پر الزام تراشیاں کیں‘ پروپیگنڈے کیے‘ مصر کے شہر میں میری عزت کو اچھالا گیا‘ پہلے اس معاملے کی تحقیق کرو۔ جب میرے دامنِ عزت پر سے لگا داغ دھلے گا‘ تب میں رہائی قبول کروں گا۔
عزیز مصر نے عورتوں کو جمع کر کے سارا معاملہ پوچھا۔ ساری عورتوں نے گواہی دی کہ یوسف سچا ہے۔ اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ آخر میں جب عزیز مصر کی بیوی کی باری آئی تو کہنے لگی‘ حقیقت یہ ہے کہ حق واضح ہو چکا ہے۔ میں نے ہی اسے پھسلانا چاہا تھا۔ میں ہی اسے اندر لے کے گئی تھی۔ میں نے ہی اسے گناہ پر آمادہ کیا تھا۔ یہ سارا جرم وگناہ میرا ہے۔ یوسف سچا ہے۔
اس کا کوئی گناہ نہیں۔ اس طریقے سے نہ صرف اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کی بلکہ ان کے دامن پر لگے ہوئے داغ کو دھو دیا۔ اللہ اپنے انبیاءکی عزت و ناموس کی ایسے ہی حفاظت کرتا ہے۔ یوسف علیہ السلام اس فیصلے کے بعد قید سے نکلتے ہیں تو بادشاہ ملاقات کرتا ہے اور کہتا ہے۔
ہم سے بڑی غلطی ہوئی بڑی زیادتی ہوئی۔ ہم نے بڑا ظلم کیا۔ اب میں ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ یوسف تُو ہمارا مقرب ہے۔ ہم تجھے امور حکومت میں شامل کر کے بڑا عہدہ دینا چاہتے ہیں۔ تیرے جیسے شخص‘ تیرے جیسے صادق و امین‘ بلند اخلاق اور عزت وناموس کے محافظ شخص کی بڑی قدر افزائی ہونی چاہیے۔ ہم تجھے بڑی وزارت اور مقام و مرتبہ دیں گے۔
اس وقت مصر کی معیشت کا معاملہ بڑا خراب تھا۔ کرپشن تھی، لوٹ مار تھی، طبقات کی سخت تقسیم تھی۔ یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں‘ معیشت کا شعبہ مجھے دے دیں۔ اللہ نے مجھے صلاحیت دی ہے۔ اس کی حفاظت کا سلیقہ دیا ہے اور علم بھی عطا کیا ہے۔ میں یہ کام اللہ کی مدد سے کر کے دکھا¶ں گا۔
اس واقعہ سے اللہ نے یہ نکتہ بھی سمجھایا ہے کہ معاشروں اور حکومتوں کی اصلاح وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے کردار محفوظ ہوں، جو اپنی عزتوں کو محفوظ رکھیں‘ کردار کو پختہ رکھیں‘ ان کے ہاتھوں میں امورِ حکومت ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے قوموں‘ ملکوں اور معاشروں کی اصلاح کرتے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کو خزانہ کی وزارت دی گئی۔ انہوں نے معاشیات کو عدل کے ساتھ قائم کر کے ایسا شاندار نظام بنایا کہ ساری غلطیاں اور خرابیاں دور ہو گئیں۔ یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا یہ بہت عظیم قصہ ہے جسے قرآن نے احسن القصص قرار دیا ہے۔ امت مسلمہ کیلئے اس میں اصلاح کا شاندار سبق ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی عزت کی حفاظت کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود انبیاءکی عصمت کی حفاظت کرتا ہے۔
آج پھر انبیاءکی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دیگر کئی انبیاءعلیہم السلام کے بارے میں بیہودہ فلمیں بنائی جارہی ہیں، جن میں ان کی عزت و ناموس پر حملے کئے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے جارہے ہیں۔ انبیاءکی ناموس پر انگشت نمائی کرنے والے یہودی ہیں۔ یہودی انبیاءکی عصمت کےخلاف ہمیشہ سے پروپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج بھی میڈیا پر اصل کنٹرول یہودیوں کا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے چینلز اور میڈیا گروپس کے پیچھے ہر جگہ یہودی ہیں۔ یہی ان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عزتیں اچھالنا‘ قوموں کو لڑانا‘ ملکوں کو لڑانا اور لڑا لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا‘ یہودیوں کی سرشت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شرارتیں قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں۔
یہودیوں کا یہ کردار اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بھی قرآن میں پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش خرقِ عادت تھی۔ معمول سے ہٹ کر تھی۔ جب آپ بِن باپ کے پیدا ہوئے تو یہودیوں نے طعنے دیئے یہاں تک کہ مریم علیہا السلام پر (نعوذباللہ) زنا کی تہمت لگائی۔ حالانکہ مریم علیہا السلام اپنے وقت کی سب سے باعصمت خاتون تھیں۔ آج کی تحریف شدہ بائبل میں مریم علیہا السلام پر تہمت کے حوالے سے یہودیوں کی ساری جھوٹی روایات درج ہیں۔ عہدنامہ¿ قدیم میں ظالم یہودیوں نے بائبل کے اس تحریف والے حصہ کو بھی شامل کر رکھا ہے جس میں مریم علیہا السلام پر تہمت ہے۔ (نعوذباللہ من ذلک)
آج یہ عیسائی صلیبی قرآن کو نشانہ بناتے‘ اور پھاڑتے ہیں۔ لیکن تحریف شدہ بائبل جس میں مریم علیہا السلام پر تہمت کے حوالے سے روایات ہیں اس کو سینے سے لگاتے ہیں۔ تحریف شدہ روایات میں لکھا ہے کہ مریم علیہا السلام کے معاذ اللہ یوسف نجار کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ ان ناجائز تعلقات کے نتیجے میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
یہودیوں کے اس الزام کا جواب دینے کیلئے عیسائیوں نے دوسری انتہاءاختیار کی۔ کہنے لگے! عیسیٰ علیہ السلام تو رب کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہیں۔ عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی صفائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا اور تین خدا بنا ڈالے۔ مریم علیہا السلام کو تہمت سے بچانے کیلئے ان کو خدائی کا درجہ دے دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی خدا بنا دیا۔ اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط عقائد رد کرتے ہوئے صحیح عقیدہ پیش کر کے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگنے والے الزامات کو بھی صاف کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت و شخصیت کو بھی واضح کر دیا۔
یہ ہے قرآن کا عصمت انبیاءاور ناموس انبیاءکی حفاظت کا انداز۔ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کے نام پر قرآن میں پوری سورة نازل کر دی۔ اس میں یہودیوں کی تمام تہمتوں اور الزام تراشیوں کا جواب دے دیا۔ ان کی خباثتوں کا رد کیا۔ عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کو رب کہنا‘ مریم علیہا السلام کو خدائی کے عہدے پر پہنچانا‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہم السلام پر یہودیوں کی لگائی تہمت کا رد کر کے اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر دیا۔ مریم علیہا السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پر لگنے والی تہمت اور الزامات کی صفائی اللہ نے قرآن مجید میں دی ہے۔ کس قدر عظیم کتاب ہے قرآن مجید جس میں سابقہ انبیاءکی عزت، عصمت اور ناموس کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔
آج جب سویڈن‘ ناروے اور امریکہ وغیرہ کے بدکردار صحافی اور پادری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ سمجھیں تو انہیں معلوم ہو کہ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیت پرکتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اگر یہ سمجھیں تو ایسی گستاخیاں بالکل نہ کریں۔ قرآن مجید کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں‘ نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائیں نہ چھاپیں۔ لیکن افسوس کہ قرآن کا احسان ماننے کی بجائے عیسائی یہودیوں کی روش پر چل کر الٹا قرآن پر مقدمے چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ دراصل یہ حسد و بغض کی آگ میں جھلسے ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے اسلام اور کفر کی پرانی کشمکش اور وہ ٹکرا¶ ہے جس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ ساری دنیا کو نظر آرہا ہے۔
قرآن جلانے کی ناکام کوشش کرنے والے ایک امریکی پادری ٹیری جونز نے حال ہی میں اپنے چرچ میں قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ گویا خود ہی ملزم ہیں‘ خود ہی منصف ہیں۔قرآن مجید عصمتِ انبیاءکا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الزامات لگے تو اللہ اسی قرآن کے ذریعے دفاع کیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ انبیاءکی توہین کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ توہین انبیاءبرداشت نہیں کرتے تو مسلمان کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ مسلمان صرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کے محافظ نہیں بلکہ تمام انبیاءکی عصمت کے محافظ ہیں۔ یہ اُمّتِ محمد ﷺ کا اعزاز ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔ مسلمان ان شاءاللہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاءکی ناموس کا دفاع کرتے رہیں گے‘ چاہے اس راہ میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
عصمت انبیاءکا مسئلہ ہمیشہ ہی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آج بھی یہ مسئلہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ انبیاءپر طعن وتشنیع‘ ان کی شخصیات کو، ان کی عزت ووقار کو مجروح کرنا اور اس حوالے سے اللہ کے دین کو نشانہ بنانا‘ عام لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنا‘ قرآن مجیدکے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا، اور قرآن کی بے حرمتی‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی‘ ان کی عزت وناموس پہ حملے‘ یہ آج کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے اپنے نبیوں کی عزت وناموس کی حفاظت کو بہت اہمیت دی ہے۔
انبیاءکی عصمت کا مسئلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے‘ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کو اللہ نے قرآن میں بہت سی جگہوں پر بار بار واضح کیا اور انبیاءکی عصمت کا خصوصی دفاع کیا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
یوسف علیہ السلام پر تہمت لگ گئی۔ عزیزِ مصرکی بیوی نے آپ علیہ السلام سے اپنی ناپاک خواہش پوری کرنا چاہی تو یوسف علیہ السلام نے کہا: ”معاذاللہ“ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ میں ایسی قبیح حرکت کے قریب نہیں جا¶ں گا۔یوسف علیہ السلام اپنی عصمت وعزت بچانے کیلئے دروازے کی طرف بھاگے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ دروازے بند ہیں صرف بند ہی نہیں‘ اس خاتون نے تالے لگا دیے تھے۔ لیکن یوسف علیہ السلام کا اللہ پر توکل ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کی پوری تدبیر کرتے ہوئے دروازوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ عزیز مصر کی بیوی نے بری نیت سے یوسف ؑ کی پیچھے سے قمیص پکڑلی تو قمیص وہاں سے پھٹ گئی۔
لیکن اللہ نے مدد کی اور دروازے کھل گئے۔
جب دونوں آخری دروازے سے باہر پہنچے تو سامنے اس عورت کا خاوند عزیز مصر کھڑا تھا۔ جب اس عورت نے اپنے خاوند کو دیکھا تو کہنے لگی: ”اے عزیزِ مصر دیکھ! یہ شخص کتنا بڑا مجرم ہے کہ اس نے تیری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ عزیز مصر کی بیوی کا الزام درحقیقت یوسف علیہ السلام کی ناموس پر حملہ تھا لہٰذا یوسف علیہ السلام کی ناموس کی حفاظت کےلئے فورا ً ہی اللہ کی مدد آگئی۔
اللہ کہتے ہیں‘ ہم نے اپنی تدبیر چلائی۔ عزیزِ مصر کے خاندان میں سے اس کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک بول اٹھا (کہا جاتا ہے کہ وہ بچہ تھا۔ بعض جگہ بڑی عمر کا لکھا ہے)
”اے عزیز مصر! بات سمجھنے والی ہے کہ اس شخص کے اخلاق کریمہ کو ہم جانتے ہیں۔ یہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر فیصلہ کرنا ہے تو ایک تجویز ہے۔ اگر یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو پھر یہ عورت سچی۔ اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو پھر یہ عورت جھوٹی اور یوسف علیہ السلام سچے ہیں۔
جب قمیص کو دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔
عورت کے خاوند نے اسے کہا‘ یہ ساری شرارت تیری ہی ہے۔
وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔ کہنے لگا: ”اے یوسف میری عزت کا سوال ہے۔ توکسی سے بات نہ کرنا۔ یہ ساری شرارت میری بیوی کی ہے۔ تیرا اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ پہلے یہ بات چند لوگوں تک محدود رہی‘ کسی کو پتہ نہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ بات پھیلنے لگی۔
مصر کی عورتیں آپس میں کہنے لگیں‘ یہ کیسی عورت ہے۔ عزیز مصر کی بیوی ہوکر اپنے ہی غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے۔ اس کا دماغ خراب ہے۔ اس کو Status کا ہی پتہ نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا گیا خواب کی تعبیر بتانے کیلئے جب حاکم مصر کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ سے رہائی کا پروانہ پہنچا تو حاکم مصر کو انہوں نے پیغام بھیجا کہ میں ایسے باہر نہیں آ¶ں گا۔ پہلے میرے اوپر لگائے گئے الزام کا فیصلہ کرو۔ جنہوں نے مجھ پر الزام تراشیاں کیں‘ پروپیگنڈے کیے‘ مصر کے شہر میں میری عزت کو اچھالا گیا‘ پہلے اس معاملے کی تحقیق کرو۔ جب میرے دامنِ عزت پر سے لگا داغ دھلے گا‘ تب میں رہائی قبول کروں گا۔
عزیز مصر نے عورتوں کو جمع کر کے سارا معاملہ پوچھا۔ ساری عورتوں نے گواہی دی کہ یوسف سچا ہے۔ اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ آخر میں جب عزیز مصر کی بیوی کی باری آئی تو کہنے لگی‘ حقیقت یہ ہے کہ حق واضح ہو چکا ہے۔ میں نے ہی اسے پھسلانا چاہا تھا۔ میں ہی اسے اندر لے کے گئی تھی۔ میں نے ہی اسے گناہ پر آمادہ کیا تھا۔ یہ سارا جرم وگناہ میرا ہے۔ یوسف سچا ہے۔
اس کا کوئی گناہ نہیں۔ اس طریقے سے نہ صرف اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کی بلکہ ان کے دامن پر لگے ہوئے داغ کو دھو دیا۔ اللہ اپنے انبیاءکی عزت و ناموس کی ایسے ہی حفاظت کرتا ہے۔ یوسف علیہ السلام اس فیصلے کے بعد قید سے نکلتے ہیں تو بادشاہ ملاقات کرتا ہے اور کہتا ہے۔
ہم سے بڑی غلطی ہوئی بڑی زیادتی ہوئی۔ ہم نے بڑا ظلم کیا۔ اب میں ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ یوسف تُو ہمارا مقرب ہے۔ ہم تجھے امور حکومت میں شامل کر کے بڑا عہدہ دینا چاہتے ہیں۔ تیرے جیسے شخص‘ تیرے جیسے صادق و امین‘ بلند اخلاق اور عزت وناموس کے محافظ شخص کی بڑی قدر افزائی ہونی چاہیے۔ ہم تجھے بڑی وزارت اور مقام و مرتبہ دیں گے۔
اس وقت مصر کی معیشت کا معاملہ بڑا خراب تھا۔ کرپشن تھی، لوٹ مار تھی، طبقات کی سخت تقسیم تھی۔ یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں‘ معیشت کا شعبہ مجھے دے دیں۔ اللہ نے مجھے صلاحیت دی ہے۔ اس کی حفاظت کا سلیقہ دیا ہے اور علم بھی عطا کیا ہے۔ میں یہ کام اللہ کی مدد سے کر کے دکھا¶ں گا۔
اس واقعہ سے اللہ نے یہ نکتہ بھی سمجھایا ہے کہ معاشروں اور حکومتوں کی اصلاح وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے کردار محفوظ ہوں، جو اپنی عزتوں کو محفوظ رکھیں‘ کردار کو پختہ رکھیں‘ ان کے ہاتھوں میں امورِ حکومت ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے قوموں‘ ملکوں اور معاشروں کی اصلاح کرتے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کو خزانہ کی وزارت دی گئی۔ انہوں نے معاشیات کو عدل کے ساتھ قائم کر کے ایسا شاندار نظام بنایا کہ ساری غلطیاں اور خرابیاں دور ہو گئیں۔ یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا یہ بہت عظیم قصہ ہے جسے قرآن نے احسن القصص قرار دیا ہے۔ امت مسلمہ کیلئے اس میں اصلاح کا شاندار سبق ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی عزت کی حفاظت کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود انبیاءکی عصمت کی حفاظت کرتا ہے۔
آج پھر انبیاءکی عصمت پر حملے ہو رہے ہیں، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دیگر کئی انبیاءعلیہم السلام کے بارے میں بیہودہ فلمیں بنائی جارہی ہیں، جن میں ان کی عزت و ناموس پر حملے کئے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے جارہے ہیں۔ انبیاءکی ناموس پر انگشت نمائی کرنے والے یہودی ہیں۔ یہودی انبیاءکی عصمت کےخلاف ہمیشہ سے پروپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج بھی میڈیا پر اصل کنٹرول یہودیوں کا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے چینلز اور میڈیا گروپس کے پیچھے ہر جگہ یہودی ہیں۔ یہی ان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عزتیں اچھالنا‘ قوموں کو لڑانا‘ ملکوں کو لڑانا اور لڑا لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا‘ یہودیوں کی سرشت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شرارتیں قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے بیان کی ہیں۔
یہودیوں کا یہ کردار اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بھی قرآن میں پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش خرقِ عادت تھی۔ معمول سے ہٹ کر تھی۔ جب آپ بِن باپ کے پیدا ہوئے تو یہودیوں نے طعنے دیئے یہاں تک کہ مریم علیہا السلام پر (نعوذباللہ) زنا کی تہمت لگائی۔ حالانکہ مریم علیہا السلام اپنے وقت کی سب سے باعصمت خاتون تھیں۔ آج کی تحریف شدہ بائبل میں مریم علیہا السلام پر تہمت کے حوالے سے یہودیوں کی ساری جھوٹی روایات درج ہیں۔ عہدنامہ¿ قدیم میں ظالم یہودیوں نے بائبل کے اس تحریف والے حصہ کو بھی شامل کر رکھا ہے جس میں مریم علیہا السلام پر تہمت ہے۔ (نعوذباللہ من ذلک)
آج یہ عیسائی صلیبی قرآن کو نشانہ بناتے‘ اور پھاڑتے ہیں۔ لیکن تحریف شدہ بائبل جس میں مریم علیہا السلام پر تہمت کے حوالے سے روایات ہیں اس کو سینے سے لگاتے ہیں۔ تحریف شدہ روایات میں لکھا ہے کہ مریم علیہا السلام کے معاذ اللہ یوسف نجار کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ ان ناجائز تعلقات کے نتیجے میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
یہودیوں کے اس الزام کا جواب دینے کیلئے عیسائیوں نے دوسری انتہاءاختیار کی۔ کہنے لگے! عیسیٰ علیہ السلام تو رب کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہیں۔ عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی صفائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا اور تین خدا بنا ڈالے۔ مریم علیہا السلام کو تہمت سے بچانے کیلئے ان کو خدائی کا درجہ دے دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی خدا بنا دیا۔ اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط عقائد رد کرتے ہوئے صحیح عقیدہ پیش کر کے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگنے والے الزامات کو بھی صاف کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت و شخصیت کو بھی واضح کر دیا۔
یہ ہے قرآن کا عصمت انبیاءاور ناموس انبیاءکی حفاظت کا انداز۔ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کے نام پر قرآن میں پوری سورة نازل کر دی۔ اس میں یہودیوں کی تمام تہمتوں اور الزام تراشیوں کا جواب دے دیا۔ ان کی خباثتوں کا رد کیا۔ عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کو رب کہنا‘ مریم علیہا السلام کو خدائی کے عہدے پر پہنچانا‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہم السلام پر یہودیوں کی لگائی تہمت کا رد کر کے اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر دیا۔ مریم علیہا السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پر لگنے والی تہمت اور الزامات کی صفائی اللہ نے قرآن مجید میں دی ہے۔ کس قدر عظیم کتاب ہے قرآن مجید جس میں سابقہ انبیاءکی عزت، عصمت اور ناموس کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔
آج جب سویڈن‘ ناروے اور امریکہ وغیرہ کے بدکردار صحافی اور پادری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ سمجھیں تو انہیں معلوم ہو کہ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیت پرکتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اگر یہ سمجھیں تو ایسی گستاخیاں بالکل نہ کریں۔ قرآن مجید کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں‘ نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائیں نہ چھاپیں۔ لیکن افسوس کہ قرآن کا احسان ماننے کی بجائے عیسائی یہودیوں کی روش پر چل کر الٹا قرآن پر مقدمے چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ دراصل یہ حسد و بغض کی آگ میں جھلسے ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے اسلام اور کفر کی پرانی کشمکش اور وہ ٹکرا¶ ہے جس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ ساری دنیا کو نظر آرہا ہے۔
قرآن جلانے کی ناکام کوشش کرنے والے ایک امریکی پادری ٹیری جونز نے حال ہی میں اپنے چرچ میں قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ گویا خود ہی ملزم ہیں‘ خود ہی منصف ہیں۔قرآن مجید عصمتِ انبیاءکا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الزامات لگے تو اللہ اسی قرآن کے ذریعے دفاع کیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اللہ انبیاءکی توہین کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ توہین انبیاءبرداشت نہیں کرتے تو مسلمان کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ مسلمان صرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کے محافظ نہیں بلکہ تمام انبیاءکی عصمت کے محافظ ہیں۔ یہ اُمّتِ محمد ﷺ کا اعزاز ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔ مسلمان ان شاءاللہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاءکی ناموس کا دفاع کرتے رہیں گے‘ چاہے اس راہ میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔