”کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں 5فیصد بھارت نواز لابی رکاوٹ، امریکہ بھی اسکے ساتھ ہے“

لاہور (احمد جمال نظامی سے) مسلم لیگ ق کی رکن قومی اسمبلی بشریٰ رحمن نے کہا ہے کہ بلوچستان سمیت چاروں صوبوں کے 95 فیصد عوام کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی خواہاں ہے۔ صرف 5 فیصد بھارت نواز لابی کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کرنے دے رہی۔ امریکہ بھی اس لابی کے پیچھے ہے۔ اس بھارت نواز لابی پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں جبکہ سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین حافظ ظہورالحسن ڈاہر نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے مبینہ طور پر2ارب20 کروڑ روپے لئے کیونکہ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو بھارت کارگل ڈیم تعمیر نہیں کر سکتا تھا۔ نوائے وقت سے گفتگو میں بشریٰ رحمن نے کہا کہ بعض لوگ کالا باغ ڈیم کو مردہ گھوڑا اور ڈیڈ ایشو کہتے ہیں مگر جب خیبر پی کے ڈیڈ ایشو ہونے کے باوجود بن سکتا ہے تو کالا باغ ڈیم زندہ ایشو ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پنجاب، سندھ اور سارے صوبے متاثر ہو رہے ہیں، محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ اے این پی بلاجواز کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتی ہے۔ میں نے اسمبلی فلور پر جب کالا باغ ڈیم کے حق میں آواز اٹھائی تو میری آواز کو دبانے کیلئے انتہا درجے کی بدتہذیبی کا مظاہر ہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پنجاب کی خواتین ٹھیک اسی طرح اپنی قربانی دینے کو تیار ہیں جس طرح دریائے نیل کیلئے خواتین کی قربانی دی جاتی تھی۔ ڈیم نہ بننے سے دریا خشک اور زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں اور مخصوص لابی بھارت سے کئے گئے وعدوں کو نبھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کا ایشو زندہ ہے۔ وزیراعظم اور تمام ذمہ داران ”اندر“سے اس کی ضرورت اور اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں مگر صرف خیبر پی کے میں بھارتی وعدوں سے وفا کا سلسلہ جاری ہے۔ کالا باغ ڈیم بننا چاہئے چاہے اس کا نام زرداری، بے نظیر یا بھاشا ڈیم جو مرضی نام رکھ دیا جائے۔ افسوس کہ سیلاب سے جب نوشہرہ ڈوبا تو تب بھی بھارت نواز شرمندہ نہ ہوئے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کو بھی کالا باغ ڈیم پر کوئی اعتراض نہیں۔ مگر بھارت نواز لابی ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند ہے اور سب کو اکسایا جاتا ہے۔ حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے کہا کہ ابتر صورتحال یہ ہے کہ چناب، جہلم اور دریائے سندھ جہاں پہلے ان دنوں 2 لاکھ 30 ہزار کیوسک پانی آتا تھا۔ آج کل صرف 50 ہزار کیوسک آرہا ہے۔ جس سے 72 لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں جبکہ 2کروڑ 60 لاکھ ایکڑ اراضی بنجر ہو رہی ہے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم بھی بری طرح متاثر ہیں۔ ان سے 4544 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی تھی اور اب صرف 6 ہزار کیوسک پانی بجلی پیدا کر رہا ہے۔ بھارت تقریباً 62 چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کر چکا ہے جبکہ 238 ڈیم مکمل کرنے جا رہا ہے۔ جس پر بھارتی فوج کی نگرانی میں ڈبل شفٹ میں کام جاری ہے۔ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت ہمارے حصے کا پانی 1400 کلو میٹر رابطہ نہریں قائم کرکے لداخ سے راجستھان تک اپنی بنجر زمین آباد کرنے کیلئے 12واں پانچ سالہ منصوبہ شروع کر رہا ہے۔ جس کے تحت 2016ءتک دنیا کے بہترین نہری نظام کے حامل ملک کی نہریں ندی نالے خشک ہو جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے پہلی بار بھارتی آبی جارحیت کا نوٹس لیا ہے۔ امریکی سینٹ کی رپورٹ جو سینیٹر جان کیری کی سربراہی میں تیار کی گئی ہے اس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی انسانیت سوز عمل کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما کو مذکورہ رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو نہ روکا گیا تو جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ءکا سندھ طاس معاہدہ غیرموثر ہو چکا ہے۔ اس معاہدے پر ازسر نو عمل درآمد کو یقینی نہ بنایا گیا تو خطے میں زبردست تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ واٹر کونسل نے معاہدے کے تحت بھارت کو جو مغربی دریاﺅں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی سہولت دی تھی، اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ معاہدے سے اس بدنام زمانہ شق کو نکالا جائے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر صرف ہلیری کلنٹن بھارت کو اپنی آبی جارحیت روکنے کا کہیں تو یہ رک سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت سے اب بھی انکار ممکن نہیں۔ اسے ہر حال میں تعمیر کر کے بھارتی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ حکمران تاحال بھارتی آبی جارحیت پرکسی قسم کا کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا سکے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد کالا باغ ڈیم کی افادیت کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کی عملی تعمیر کو سیاست کی نذر کر دیا۔ حالانکہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جہاں پانی کی قلت احساس محرومی کو خطرناک ہوا دے رہی ہے۔ کالا باغ سمیت دیگر ڈیمز تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے وطن عزیز کا 35 سالوں میں 1075 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوا اور 2کروڑ 8 لاکھ ایکڑاراضی بنجر ہوئی۔ ہر سال دریاﺅں کا 60 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضائع ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 1976ءسے تاحال ہر سال اوسطاً 32.39 ایم اے ایف پانی سمندر میں جا رہا ہے، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 32 فیصد سے زائد کمی ہو چکی ہے۔ اس وقت ہمارے ڈیمز میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 18.71 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر 12.768 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ دریاﺅں کا پانی صرف 30 دنوں تک ذخیرہ کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کو کالا باغ ڈیم سمیت تمام آبی ذخائر کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر شروع کرکے بھارتی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔
بھارتی آبی جارحیت

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...