ممتاز شاعر اور کالم نگار خالد احمد کا نیا شعری مجموعہ نم گرفتہ کی تقریب اور پُرنم الہ آبادی کی تقریب میں مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا رہا۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
بھربھری مٹی بھیگتی ہے تو اس میں سے خوشبو اٹھتی ہے۔ یہی خوشبو بدن سے بھی آتی ہے کہ بدن بھی مٹی سے بنا ہے۔ سیاست میں ”مٹی پاﺅ“ کا محاورہ عام ہوا ہے مگر اس میں بھی ایک مصلحت چھپی ہوئی ہے۔ جھگڑا ختم کرو اور ”روٹی شوٹی“ کھاﺅ۔
مجھے نہیں معلوم کہ نم گرفتہ خالد احمد اور پُرنم الہ آبادی میں کوئی روابط تھے کہ نہیں۔ مگر ایک سانجھ مجھے دونوں میں نظر آتی ہے کہ خالد احمد کی شاعری میں ایک نم گرفتگی نظر آتی ہے اور دوسرے نے اپنا تخلص ہی پرنم رکھ دیا ہے۔
خالد احمد مجلسی آدمی ہے۔ دوستوں کی محفلوں میں زندگی بھر رہنے والا۔ پُرنم کے بارے میں بھی سنا ہے کہ اس کے ہاں بھی محفلیں آباد رہتی تھیں۔ خالد احمد بظاہر ہنسنے کھیلنے والا آدمی ہے مگر اس کی شاعری دل سے پڑھیں تو ہلکے رنگوں کی اداسی ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ ہمارا ایک کالم نگار شاعر تھا ابن انشا۔ وہ نثر لکھتا تو ہنسا ہنسا کے مار دیتا۔ شعر کہتا تو رُلا دیتا۔ بظاہر کوئی روئے نہ روئے اس کا دل ضرور روتا ہے۔ بھیگا ہوا دل رکھنے والے درمند لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے لئے بھیگی ہوئی آنکھیں ضروری ہیں۔ اسے ہم نے دیکھا تھا وہ کبھی رونے والوں کی طرح نظر آتا ہے اور کبھی ہنستے ہوئے لوگوں کی طرح ملتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہنسنے والوں کی زندگی بڑھ جاتی ہے مگر رونے والے زندگی کو بڑھا دیتے ہیں۔
خالد کے لئے کمپیرنگ اعجاز رضوی نے کی اور خوب کی۔ اس نے شگفتگی کی ایک لہر محفل میں دوڑا دی۔ اس کے اس ہنر سے میں اب تک واقف نہ تھا۔ وہ شاعر بھی اچھا ہے مگر اسے ابھی تھوڑا سا بدنام زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اب وہ محفلوں میں کمپیرنگ کیا کرے۔
پُرنم الہ آبادی کی تقریب میں کمپیرنگ حکیم سلیم نے کی۔ وہ شاعر بھی ہے۔ اس نے خود ابھی کوئی دعویٰ اس حوالے سے نہیں کیا اسے کوئی دعویٰ کرنا بھی نہیں چاہئے مگر کمپیرنگ وہ بھی ٹھیک ٹھاک کر لیتا ہے۔ کوئی مقرر اتنی پذیرائی کے بعد بھی اچھا نہ بول سکے تو پھر اس میں بے چارے حکیم صاحب کا کیا قصور ہے۔ یہاں میری صدارت تھی اور مجھے اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے یہ زحمت کیوں دی گئی تھی۔ خالد احمد کے لئے صدارت محترم احمد ندیم قاسمی کی اصلی بیٹی ناہید قاسمی نے کی۔ مجھے یہاں بھی مہمان خصوصی بنا کر سٹیج پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے لئے میرے احتجاج اور انکار کی پروا برادرم خالد احمد نے نہ کی۔ اعجاز رضوی بھی اس وقت بلکہ ہر وقت خالد احمد کا ساتھ دیتا ہے۔
میں میانوالی سے لاہور آیا تھا یہاں شعر و ادب کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے خالد احمد صدر دروازے کی طرح تھا۔ یہ دروازہ بند رہتا۔ اس دروازے کی دہلیز پر خالد کھڑا ہو بلکہ بیٹھا ہو تو پھر اسے بند ہی سمجھو۔ ویسے اس نے یہ دروازہ سب پر کھولا مگر ان پر بہت کھول دیا جنہیں وہ دوست سمجھتا تھا۔ اس لئے ضروری نہیں کہ وہ بھی یہ دعویٰ کرتے ہوں۔ ضروری نہیں کہ خالد احمد اس دعوے کو تسلیم کرے مگر شاعری کے ہنر میں وہ ایک باکمال آدمی ہے۔ جو شخص شاعری میں زندہ ہے وہ خالد احمد ہے۔ اس کی تقریب میں پاکستانی نسبتوں میں ثابت قدم اور گہرا شاعر اور دانشور جلیل عالی نیم مردہ ترقی پسند دانشوری میں زندہ تر یوسف حسن پنڈی سے آئے تھے۔
اس کے دو پسندیدہ شغل ہیں پیدل چلنا اور حلیم کھانا مگر وہ ابھی تک کسی منزل پر نہیں پہنچا۔ وہ پیدائشی مسافر ہے اور اس کے لئے راستوں پر ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ اندر سے حلیم الطبع ہو گیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ وہ کبھی ہارا نہیں یعنی وہ ہار نہیں مانتا۔ اس نے کبھی جیت کو بھی اہمیت نہیں دی اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سچا عاشق رسول ہے۔ سچا مسلمان ہے سچا پاکستانی ہے۔ یہ تین سچائیاں اس کے لئے تنہائیاں اور گہرائیاں بن گئی ہیں۔
خالد احمد تیری نسبت سے ہے خالد احمد
بات عشق رسول کی چلی ہے تو پُرنم صاحب کی کتاب ”عشق محمد“ عزیزم اقبال پیام شجاع آبادی نے شائع کی۔ عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام۔ یہ کتاب جس کی تقریب تھی وہ بھی اسی نے چھاپی ہے۔ ”عشق اولیائے کرام“ عشق حقیقی اور مجازی کی تقسیم غلط ہے۔ عشق کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ اقبال پیام وفا حیا والا بڑے دل والا نوجوان ہے۔ صوفیوں سے محبت کرنے والا۔ استاد بھی صوفی ہوتا ہے تصوف کا ذوق ہر شاعر کے لئے ضروری ہے۔ حکیم سلیم نے یہ تقریب کرکے بڑی صوفیانہ معرکہ آرائی کی ہے۔
پُرنم کی بہت مشہور نعت نامور گلوکار عدیل برکی نے قوالی کی شکل میں سنائی تو ایک سماں بندھ گیا۔ ”بھر دو جھولی مری یا محمد“ میں نے عرض کیا کہ اللہ کرے میری جھولی کبھی نہ بھرے۔ یہ خالی ہی رہے اور میں اسے حضور کی خدمت میں پھیلائے رکھوں۔