شرح سود 10 فیصد برقرار‘ مہنگائی میں کمی‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ‘ سٹیٹ بینک

Mar 16, 2014

کراچی (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی+ رائٹر) سٹیٹ بینک آئندہ دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران تقریباً تمام معاشی اظہاریوں میں مطلوبہ سمت میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، مہنگائی کم ہوئی ، بڑے پیمانے پر اشیا سازی کی نمو مضبوط رہی ہے۔ اسی طرح مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارہ قابو میں رہا جبکہ نجی شعبے کے قرضے میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ مالیاتی حکام طویل مدت کیلئے قرض لینے میں کامیاب رہے جس سے منڈی میں مثبت احساسات کا پتہ چلتا ہے۔ امریکی ڈالر کی نسبت روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ سٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر، جو کچھ عرصے سے باعث ِتشویش تھے، قدرے بڑھ گئے ہیں۔بحیثیت ِمجموعی معیشت کے بحال ہونے پر اعتماد بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کیفیت آئی بی اے اور سٹیٹ بینک کے سروے پر مبنی مختلف اظہاریوں میں نمایاں تبدیلی سے عیاں ہے جن میں صارفین کا اعتماد اور موجودہ و متوقع معاشی حالات کے بارے میں تصورات ظاہر ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی متغیرات میں اِن مثبت تبدیلیوں کے باوجود معیشت کو ابھی تک بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اس تیزی کو برقرار رکھنے کے لئے پالیسی کے حوالے سے فعال کاوِش درکار ہے۔ سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر کا آخر جنوری 2014ء میں 3.2 ارب ڈالر سے 7 مارچ 2014ء کو 4.6 ارب ڈالر تک پہنچ جانا صرف آغاز ہے۔ با کفایت سطح پر پہنچنے اور اُسے قائم رکھنے کیلئے ذخائر کا زیادہ مقدار میں اور مسلسل جمع ہوتے رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح جولائی تا جنوری میں 14ء کے دوران آنے والی خالص سرمایہ جاتی اور مالی رقوم جو 428 ملین ڈالر تھیں انہیں ابھی تک اِسی مدت میں ہونے والے بیرونی جاری کھاتے کے خسارے 2055 ملین ڈالر سے کم سمجھا جارہا ہے۔ مالی سال 14ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران متوقع بیرونی رقوم کی بروقت آمد سے آئندہ مہینوں کے دوران مجموعی بیرونی پوزیشن میں بہتری کا امکان ہے۔ تاہم متوقع نتیجہ متعدد پالیسی اقدامات پر منحصر ہے جن میں مناسب زری پالیسی موقف شامل ہے۔ توازن ادائیگی کی صورت ِحال میں شدید کمزوریوں سے نمٹنے کے لئے مربوط ساختی اصلاحات درکار ہیں۔ رقوم کی ایک دفعہ آمد، بیرونی قرضوں پر انحصار کچھ عرصے تک استحکام فراہم کرسکتا ہے لیکن طویل مدتی استحکام کے لئے آنے والی نجی رقوم کے حصے میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح برآمدات کی کارکردگی اور مسابقت بڑھا کر اور توانائی کی ملکی ضروریات پورا کرنے کے لئے درآمد شدہ تیل کا حصہ کم کرکے تجارتی خسارہ گھٹانے کی ضرورت ہے۔ تاہم سٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر نے منڈی کے احساسات کو بہتر بنایا ہے، سٹے بازوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اس کے نتیجے میں 17 جنوری 2014ء کو پچھلے زری پالیسی فیصلے سے اب تک ڈالر کی نسبت روپے کی قیمت میں 6.0 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ منڈی کے احساسات پر مثبت اثر مرتب کرنے میں گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) میں توقع سے زیادہ کمی کا کردار بھی ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں سے دو کے دوران گرانی میں ماہ بہ ماہ کمی کی بنا پر فروری 2014ء میں سال بسال مہنگائی گھٹ کر 7.9 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ صورت ِحال مجموعی طور پر سٹیٹ بینک کے پچھلے جائزے سے ہم آہنگ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی منجمد پیداواری استعداد کے استعمال میں اضافے کی عکاس ہوگی نہ کہ مجموعی طلب میں معمولی اضافے کی۔ بالفاظ دیگر بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے شعبے میں 6.8 فیصد کی نمو بہتر مجموعی رسد کی علامت ہے جو گرانی کو محدود کرنے کے لئے اچھا شگون ہے۔ شرح مبادلہ میں بہتری سمیت ان رجحانات نے گرانی کی آئندہ ممکنہ صورت ِحال کو بہتر بنایا ہے ۔ 14ء کیلئے اوسط مہنگائی کے یک ہندسہ میں رہنے کا زیادہ امکان ہے۔گرانی میں کمی کے ساتھ ساتھ بازار کے بڑھتے ہوئے اعتماد نے مالیاتی حکام کو قلیل مدتی ٹریژری بلز (ٹی بلز) کے بجائے طویل مدتی پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) کے ذریعے اپنی قرض گیری کی اضافی ضروریات پوری کرنے میں مدد دی۔ تاہم سٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری کا سٹاک (نقد بنیاد پر) جو 7 مارچ 2014ء کو 2669 ارب روپے تھا ابھی تک بلند سطح پر ہے۔سٹیٹ بینک کے خالص ملکی اثاثوں میں نمو کو طے شدہ اہداف میں رکھنے کیلئے سٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری میں کمی بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہوگی۔ متوقع بیرونی رقوم کا بروقت موصول ہونا اہم عامل ہے۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے بلکہ زری مجموعوں کو مطلوبہ سمت پر رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔  ان پہلوؤں کے پیش نظر سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10.0 فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے اعلان کردہ پالیسی میں شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس سے قبل ماہرین نے توقع کا اظہار کیا تھا کہ مستحکم ہوتا روپیہ اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے شرح سود کو کم کیا جا سکتا ہے تاہم مرکزی بینک کی جانب سے توقع کے برعکس پالیسی میں شرح سود کو 10فیصد پر ہی برقرار رکھا گیا۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر قدرے بڑھ گئے ہیں۔ نجی شعبے کے قرضے میں اضافہ ہوا، ڈالر کی نسبت روپے کی قیمت میں  17جنوری سے 6فیصد اضافہ ہوا۔ حکومتی اقدامات سے سٹے بازوں کی حوصلہ شکنی ہوئی، درآمد شدہ تیل کا حصہ کم کرکے تجارتی خسارہ گھٹانے کی ضرورت ہے، سٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری کا سٹاک 2669ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ ثنا نیوز کے مطابق  معیشت کے تقریباً تمام اشارئیے مطلوبہ سمت میں جا رہے ہیں، مہنگائی میں کمی ہوئی، بڑی صنعتوں کی نمو میں اضافہ ہوا جبکہ بجٹ خسارہ بھی مالی سال کے پہلی ششماہی میں کم رہا۔ پرائیویٹ سیکٹر کی قرض گیری بھی بڑھی ہے۔ معاشی اشارئیے بہتر ہونے سے حکومت کو بھی لمبے عرصے کے لئے مارکیٹ قرض دے رہی ہے، روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔۔ سب سے بڑھ کرزرمبادلہ کے ذخائئر میں بھی اضافہ ہوا ، تمام معیشت کو استحکام دینے کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں خاص طور پر بیرونی ادائیگیاں شامل ہیں۔  سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق سٹیٹ بینک مانیٹری کو بہت سارے عوامل دیکھنا ہوتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق بہت سے معاشی اشارئیے بہتر ہوئے ہیں تاہم ابھی مزید کام درکار ہے۔

مزیدخبریں