اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد سیشن جج نے غازی عبد الرشید قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی ایک دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر تے ہوئے کیس کی سماعت 5 اپریل تک ملتوی کردی۔ پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے سکیورٹی خدشات کے باعث سابق صدر کی جانب سے ایک دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخوست دائر کی۔ انہوں نے اپنے دلائل میں کہا پرویز مشرف کی جان کو سنگین خطرہ ہے۔ سابق صدر صحتیاب بھی نہیں، سکیورٹی انتظامات بہتر ہونے پر پرویز مشرف کو پیش کیا جائے گا۔ ادھر عبدالرشید غازی قتل کیس میں جماعت اسلامی کے پانچ مرکزی رہنمائوں فرید احمد پراچہ، سمعیہ راحیل قاضی، میاں محمد اسلم، سید بلال اور ڈاکٹر کوثر فردوس نے جے آئی ٹی کے رکن افتخار چٹھہ کو اپنے بیانات قلم بند کرائے ہیں۔ فرید احمد پراچہ نے اپنے بیان میں کہا 9 جولائی کی رات طے پا جانے والے معاہدہ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور لال مسجد کے خلاف حتمی آپریشن کا آغاز کردیا گیا‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا جماعت اسلامی نے سانحہ لال مسجد کے فوراً بعد فیکٹس فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنی رپورٹ میں آپریشن کا مرکزی ذمہ دار مشرف کو قرار دیتے ہوئے شوکت عزیز، سابق ڈائریکٹر جنرل رینجرز حسین مہدی،کورکمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل طارق مجید، وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو، سیکرٹری داخلہ، بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ،آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد،آئی جی پولیس اسلام آباد،کمشنر اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور دیگرکو بھی واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔انہوں نے کمیشن کی 200 سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی پیش کی۔ سمعیہ راحیل قاضی نے بتایا مشرف نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے آپریشن کا حکم دیا۔ سابق امیر جماعت اسلامی اسلام آباد سید بلال نے انکشاف کیا ’’4 جولائی کو مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے بعد میں نے علامہ عبدالرشید غازی شہید سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات پر قائل کرلیا وہ لال مسجد سے باہر نکل کر خود کو قانون کے حوالے کردیں، بعدازاں مجھے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اس دن شام تک ہمیں موقع دیا جاتا تو عبدالرشید غازی گرفتاری دے دیتے اور آپریشن بھی ان کی گرفتاری کے بعد بند ہوجاتا لیکن مجھے گرفتار کرکے سارے سلسلے کو سبو تاژ کردیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے پہلے ہی آپریشن کرکے قتل عام کا فیصلہ کیا جا چکا تھا، جماعت اسلامی اسلام آباد کے موجودہ امیر میاں محمد اسلم نے بھی پرویزمشرف کو لال مسجد آپریشن کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بتایا 3 جولائی کی رات وہ تمام مطالبات جو انتظامیہ اور پولیس منوانا چاہ رہی تھی دونوں بھائی وہ مطالبات مان گئے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی سے گذارش کی پولیس اور رینجرز گھیرائو ختم کردیں مگر انہوں نے کوئی مثبت پیش رفت کرنے کے بجائے مجھے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر کوثر فردوس نے بھی بتایا لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا تھا مگر پرویزمشرف کی حکومت نے معاہدے کو مسترد کرکے بلاجوازآپریشن کیا۔