لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں واقع کرائسٹ اور کیتھولک گرجا گھروں میں خودکش دھماکوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور80سے زائد زخمی ہوگئے۔ ان میں سے 12 کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ دھماکے اتوار کی خصوصی عبادات کے دوران ہوئے۔ دھماکوں کے بعد علاقے میں شدید اشتعال پھیل گیا اور مشتعل افراد نے جائے وقوعہ سے دو مشکوک افراد کو پکڑکر تشدد کے بعدزندہ جلا دیا۔ مشتعل افراد نے میٹروبس بند کرا دی اور تحقیقات کے لئے آنیوالے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اس سے ایک پولیس اہلکار کی حالت نازک ہو گئی۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت اور پولیس انہیں حفاظت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ مشتعل افراد نے وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ اور وفاقی وزیر کامران مائیکل کو علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے لاہور دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ عوام کی جان و مال کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے آئی جی سے فوری رپورٹ طلب کی ہے۔سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈی آئی جی آپریشنز نے تصدیق کی ہے کہ دونوں دھماکے خودکش تھے۔کیتھولک چرچ کے پادری نے نجی ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے چرچ کے مرکزی گیٹ سے داخل ہونے کی کوشش کی۔ سکیورٹی پر مامور گارڈز نے جب ان کو روکا ہے تو انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسرے چرچ میں گیٹ کے اندر بمبار نے خود کو اڑا لیا۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے لاہور میں یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دہشتگردوں کا کوئی مذہب ہے نہ مسلک بلکہ ان کے قریب سے تو انسانیت بھی نہیں گزری۔ یہ انسان کے روپ میں درندے‘ عفریت اور بھیڑئیے ہیں۔ جو معصوم بچوں کے قتل کو بھی اپنے عقیدے کا حصہ قرار دیتے ہوں ان سے انسانیت کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ آج پوری قوم ان کے خاتمے کے لئے متفق اور متحد ہے۔ ان کے خاتمے کے لئے ضرب عضب آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔ کبھی ان کی کارروائیوں کو سیاسی مصلحتوں کی بنا پر حکومتی سطح پر صرفِ نظر کیا جاتا تھا مگر آج ان کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان کا کہنا ہے کہ یوحنا آباد کے دھماکے ضرب عضب آپریشن کا ردعمل ہو سکتا ہے۔ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ لاہور میں دہشتگردوں کے کئی نیٹ ورکس پکڑے گئے اور دہشتگردی کی ممکنہ کارروائیاں ناکام بنائی گئیں۔ اس کے باوجود بھی دہشتگردی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ اس میں سکیورٹی لیپس کا بھی کسی حد تک عمل دخل ہے۔ تاہم سکیورٹی ادارے پہلے سے کہیں زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ یوحنا آباد کے دھماکوں اور کالعدم تنظیم کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار بدستور لاہور اور دیگر شہروں میں موجود ہیں۔ ان کے خلاف بھی کراچی کی طرح بے لاگ اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر بے رحمانہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ حکومت اور ایجنسیوں سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنے چند گنے چنے مدارس اور دہشتگردوں کے پشت پناہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کردار اوجھل نہیں ہے۔ ان کے خلاف ایکشن نہ لینے سے یہی نتیجہ ہو سکتا ہے جو یوحنا آباد میں ہوا اور چندہ ماہ قبل واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کی صورت میں ہوا تھا۔
وفاقی وزیر مائیکل کامران نے درست کہا کہ یہ مسیحی برادری پر نہیں پاکستان پر حملہ ہوا ہے۔ بلاشبہ قیام پاکستان میں مسیحی برادری کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا ان کی پاکستانیت اور وطن عزیز سے محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سکول پر دہشت گردی ہو، مسجد، مزار، امام بارگاہ، گلی یا بازار میں، کہیں بھی ہو اس میں پاکستانی مارے جاتے ہیں۔ مارنے والوں کا مذہب، مسلک، ایمان اور عقیدہ صرف اور صرف دہشت گردی ہے ان کا ایجنڈا گمراہ کن ہے۔ اور یہ پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ آج پوری قوم پاکستان کا آئرلینڈ کے ساتھ میچ انجوائے کر رہی تھی کہ دہشتگردوں نے روح فرسا سانحہ برپا کر دیا۔ جس سے ہر پاکستانی غمگین اور افسردہ ہو گیا۔ آئرلینڈ سے جیت کے بعد قوم نے جشن منانا تھا مگر وہ یوحنا آباد میں معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتوں پر آبدیدہ تھی۔
پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں سے دنیا میں کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا ایسے واقعات سے پاکستانیوں کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے مگر جس طرح سے یوحنا آباد کے واقعہ کے بعد شدید اشتعال کا مظاہرہ کیا گیا اس نے پاکستان میں اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو تقویت مل سکتی ہے۔ حالانکہ دہشتگردی کے ایسے واقعات کئی سال سے ہو رہے ہیں جن میں سفاک دہشتگرد بلاامتیاز مذہب و مسلک کے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی موت ایک ناقابل برداشت صدمہ ہے مگر اس کا مطلب اشتعال میں آکر قومی املاک کو نقصان پہنچانا اور عوام کے لئے ایزارسانی کا باعث بننا ہرگز نہیں ہے۔ میٹرو سٹیشنوں کو جلا دیا گیا اور یہ سروس معطل کر دی گئی۔ میٹرو سے یوحنا آباد کے ہزاروں مسیحی بھی استفادہ کرتے ہیں۔ ایسا جلاؤ گھیراؤ اپنے ہی آشیاں کو جلانے کے مترادف نہیں تو کیا ہے۔ ہجوم نے سب سے بڑا ظلم دو مشکوک افراد کو بہیمانہ طریقے سے زندہ جلا کرکیا۔ اگر وہ واقعی دہشت گرد تھے تو ان کو قتل کرکے ان کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچنے کا راستہ بند کر دیا گیا اور وہ بے قصور تھے تو ظلم کی انتہا ہے۔ ہجوم نے ان دو نامعلوم افراد کو تشدد کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعد پولیس سے چھین کر سر عام آگ لگا کر انسانیت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ان دو افراد کو زندہ جلا دینا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا چار ماہ قبل کوٹ رادھا کشن میں ایک ہجوم نے شمع اور شہزاد مسیح کو زندہ جلا کر کیا تھا۔ دونوں نا قابل تلافی جرائم ہیں۔
سکیورٹی کی عدم فراہمی کے الزام کی پولیس نے تردید کی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جہاں سات اہلکار تعینات تھے ان میں دو جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ گرجا گھروں کی اپنی سکیورٹی بھی تھی پولیس اور مقامی سکیورٹی کے باعث ہی دہشت گرد اندر تک جانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہوں نے خود کو گیٹ پر اڑا لیا اگر وہ اندر جانے میں کامیاب ہو جاتے تو نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا تھا۔ حکومت جو بھی جواز پیش کرے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرے یا نہ کرے مگر ہر پاکستانی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری بوجوہ پوری نہیں ہو رہی۔ چرچ انتظامیہ اور عبادت کے لئے آنیوالوں نے خوفزدہ ہو کر بھاگنے کے بجائے وہیں موجود رہ کر دہشت گردوں کا ممکنہ حد تک مقابلہ کیا۔ بڑی جرات اور دلیری سے دو مشکوک افراد کو مبینہ طور پر اسلحہ سمیت پکڑ لیا مگر چند شرپسندوں نے ان کو پولیس حراست سے چھڑا کر مزید تشدد کیا اور زندہ جلا کر کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ پولیس کی مدعیت میں دوسرا مقدمہ ان لوگوں کے خلاف بھی درج کرنے کی رپورٹس ہیں۔ یہ تحقیقات ضروری ہو گئی ہے کہ مشکوک افراد کو پولیس سے چھین کر آگ لگانے والے دہشت گردوں کے ساتھی تو نہیں تھے جنہوں نے یہ کام دہشت گردوں کا کُھرا گم کرنے کے لئے کیا؟
دہشت گرد قومی املاک، دفاعی تنصیبات، ملک کو عدم و استحکام سے دوچار اور قوم کے اندر نفاق و انتشار پیدا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ یوحنا آباد کے گرجا گھروں پر دہشتگردی بھی قوم کے اندر نفاق پیدا کرنے اور دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ ان سازشوں سے پوری پاکستانی قوم کو متحد ہو کر نمٹنا ہوگا۔ اس کے لئے ہر فرد کو صرف پاکستانی بن کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت، فوج اور متعلقہ ادارے بلاشبہ دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے یکجہت، یکجا اور پر عزم ہیں مگر دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور حامیوں پر ہاتھ ڈالنے میں کہیں نہ کہیں مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں ان کو دہشت گردوں کے جلد اور مکمل خاتمے کے لئے مصلحتوں سے بالاتر ہونا ہوگا۔