43واں جشن ساحر

خود کو پل دو پل کا شاعر کہنے والے ہر پل کے شاعر ساحر لدھیانوی کے ساتھ جانے اور کتنی نسلیں عقیدت‘ محبت کا پیماں باندھیں‘ ہر آنے والا دن ان کی ساحری میں کتنوں کو مبتلا کرتے کہہ نہیں سکتے لیکن ساحر سے محبت نبھانے میں ڈاکٹر کبول دھبر کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ مشرقی پنجاب میں اردو کی شادابی کے لئے ہمہ وقت فکر مند و مصروف تو رہتے ہی ہیں لیکن پچھلے 43 سالوں سے ساحر لدھیانوی کی جنم بھومی پر ان کا جشن مناتے ہوئے دنیا بھر سے اردو زبان میں محبتوں کے پھیلاؤ پر یقین رکھنے والوں کو جمع کرنا کچھ انہی کا کام ہے۔ ادیب انٹرنیشنل کے زیراہتمام ساحر کلچرل اکیڈمی کے مشاعرے کی روایت چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ پاکستان سے انڈیا جا کر ساحر کا جشن میں نے دوسری مرتبہ منایا لیکن اب کے بار میرے ہمسفروں نے دل دروازے پر ایسی دستک دی جس نے انمٹ یادوں کے کئی باب تحریر کئے جن کا ذکر کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتی ہوں لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہمیشہ ہمسفر ہی سفر کو یادگار بناتے ہیں۔ 72 سال کی عمر میں 27 سالہ جوان یادداشت لئے عطاء الحق قاسمی دنیا بھر میں کہیں بھی اردو‘ پنجابی سمجھنے والوں کے لئے زعفران سے کم نہیں۔ ایسے میں فرحت پروین جیسی ذمہ دار افسانہ نگار اور نئے لہجے کی آمنہ مفتی کسی طور نظرانداز نہیں کی جا سکتیں ناز بٹ‘ عزیز احمد اور نبیل نجم لدھیانہ میں گزرے پل پل کو تصویروں میں ڈھالتے رہے اور پردیس ہمارے لئے اک دوجے پر آشکار ہونے کی گھڑیوں میں بدلتا رہا۔
ساحر کا یہ جشن منفرد افسانہ نگار فلم رائٹر خواجہ احمد عباس کے نام کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن مشاعرے سے ایک روز قبل خواجہ احمد عباس کے ایک افسانے کی ڈرامائی تشکیل‘ جس میں ایک ہی کردار نے گھنٹہ بھر لوگوں کو اپنی نشستوں سے ہلنے نہ دیا۔ اگرچہ ہم اسی روز انڈیا پہنچے تھے اور لدھیانہ تک کے سفر نے آدھا ڈرامہ ہاتھ سے نکال دیا لیکن پرفارمنس کرنے والے عمیر نے کم سے کم مجھے تو حیران کر دیا۔ تھیٹر کے بعد ہیرو سائیکل کے روح رواں جناب ’’ایس کے رائے‘‘ کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں کردار نبھانے والے ایکٹر عمیر سے بات چیت ہوئی جو اردو بول تو سکتا تھا لیکن اردو حروف سے ناآشنا تھا۔ شاید بھارت میں اردو کے چاہنے والوں کے لئے یہی فکر لمحہ لمحہ درد بنتی جا رہی ہے اور اس درد میں کیول دھیر بھی مبتلا ہیں‘ شاید اسی لئے اردو کو ہندی کا لباس اوڑھتے دیکھ کر ان کی پیشانی پر شکنیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں کیونکہ مستعار لیا پیراہن کسی بھی زبان کی فنا کا پہلا زینہ ہے۔ زبان اور بولیوں کے تذکرے تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے لیکن 8 مارچ کی سبک رو‘ بارش میں بھیگتی شام‘ جب ساری دنیا خواتین کا دن منا رہی تھی۔ ہم لدھیانہ کے پانڈے آڈیٹوریم میں بسی خوشبوؤں اور دھیمی روشنیوں میں اس مشاعرے میں شریک ہو رہے تھے جس کے لئے سامعین ہم سے قبل نشستوں پر براجمان تھے۔ مشاعرے کا آغاز اپنی اعلیٰ روایات کے ساتھ ہوا لیکن نظامت کا یہ نیا انداز کچھ معین شاداب اور کمیش گپتا ہی کا مرہون تھا۔ ڈھلتی رات کے ساتھ تیز بارش کی چھما چھم نے داد دینے والوں کو میزبانی کے اصول سمجھا دیئے تھے اس لئے وہ کسی طور ساحر کی محبت سے دستبردار ہونے پر مائل نہ تھے۔ مشاعرے میں انڈیا کے شعرا سے خوبصورت بھرپور تعارف دل و دماغ پر ان کے دلکش عکس نقش کرتا رہا۔ شکیل اعظمی‘ حسیب سوز‘ ساگر سیالکوٹی‘ پریگیاوکاس‘ معین شاداب اور ڈاکٹر ترنم ریاض سے انڈیا میں اردو شاعر کے نئے مضامین کی نرماہٹ اور کڑواہٹ یعنی دونوں ذائقوں کی لذت دی۔ انڈیا میں اردو شاعری سماج کے نشیب و فراز کا زہر کس طرح نگلتی اور کیسے اگلتی ہے پاکستانی شعراء کے لئے اس کی جانکاری بہت اہم تھی۔ پاکستان سے شریک تمام شعراء کی والہانہ پذیرائی پہچان کے نئے جزیروں کی دریافت سے کم نہ تھی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب کی بزلہ سنجی نے صدارتی خطبہ یادگار بنا دیا‘ شاید اس لئے بھی کہ ان کے بالکل سامنے نشست پر ان کی اہلیہ تشریف فرما تھیں اور وہ ان سے سر محفل کلام کر رہے تھے جس کا مزہ بھری محفل نے لیا۔ اس یادگار مشاعرے نے جہاں روح کو سرشار کیا وہیں دہلی یونیورسٹی اردو ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ارتضی کریم اور کینیڈا کے معروف شاعر اشفاق حسین کے ساتھ ’’الوبرائے فروخت نہیں‘‘ کی پاکستانی مصنفہ آمنہ مفتی کو راگیش بھارت کے ہاتھوں ساحر ادیب ایوارڈ نے احساس فخر بخشا۔ اگرچہ سماجی کالم لکھنا میرے لئے کبھی کھٹن نہیں رہا لیکن ساحر کے دیس میں محبت‘ خلوص اور شفقت سے لبریز میزبانی کی تسلیم اور اسکا اظہار و اقرار میرے لئے امتحان سے کم نہیں۔ ہندی ڈرامہ رائٹر چراغ کلدیپ جس طرح مسلسل پروگرام کے دلوں میں ڈاکٹر کیول دھیر کا بازو بنے رہے اس سے یہ احساس قوی ہو رہا ہے کہ محبتوں کا سفر جاری رہے گا۔ کہتے ہیں ناں کچھ سفر رشتوں‘ جذبوں اور احساس کی دریافت بن جاتے ہیں۔ مائیکل اسی طرح کیول دھیر کو تو کھوج ہی چکے تھے لیکن ترنم ریاض کا دہلی والوں سے محبت‘ مروت اور اخلاص سے بھرا انداز… اور ذات کے پنجرے میں کشمیر کی وادیوں‘ جھرتوں اور لہجے کا دور‘ ایک نہ ختم ہونے والے رشتے میں بدل گیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...