’’’حقوق نسواں بل کے تحت گھر سے نکلوانے کی دھمکی پر خاوند نے بیوی کو آگ لگا دی۔‘‘
راولپنڈی کے نواحی علاقے سرائے مغل میں ہونیوالے اس اندوہناک واقعہ کے خبر پڑھتے ہی روح کانپ اٹھی۔ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ اس واقعہ اور اسکے بعد آنیوالے خوفناک حالات کا ذمہ دار کون ہے؟
خواتین کے حقوق سے انکار کسے ہو سکتا ہے، خصوصاً ایک مسلمان معاشرے میں عورت کے حقیقی رول سے کون صرفِ نظر کر سکتا ہے۔ میں کوئی عالم دین نہیں، لہٰذا میں اسلامی پہلوئوں پر زیادہ تو نہیں لکھ سکتا، لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس میڈیا کیلئے ایسے اسکالرز نہیں، جو دلائل کیساتھ اس موضوع پر گفتگو کر سکیں جو جید علماء اس قسم کے موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ بحث کر سکتے ہیں ، میڈیا پر ان علماء کو مدعو نہیں کیا جاتا یا انہیں بلایا بھی جائے تو ان کا موقف ٹھیک سے سنا نہیں جاتا۔ لہٰذا ایسے نام نہاد علماء ٹی وی پر آجاتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کا ایک شاندار مقدمہ بھی خراب کرکے چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اسلام کے روشن چہرے پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ نتیجتاً نوجوان طبقہ جو پہلے ہی انٹرنیٹ کے اس دور میں حقیقی فہم اور علم سے دور ہے، مزید ذہنی کشمکش اور الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مفکر اسلام کا یہ خوبصورت شعر ہمارے لیے پالیسی اسٹیٹمنٹ کا درجہ رکھتا ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ہاشمی
خاندانی نظام ایک بہت بڑا اثاثہ ہے جو صرف ہماری عائلی ترتیب ہی نہیں بلکہ پورے نظام معاشرت کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ چاہیے تھا کہ حکومت اصل مسائل پر توجہ دیتی۔ کرپشن، جعلسازی، تعلیم و صحت کے نظام اور پولیس و عدالتی نظام کو بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کرتی تاکہ غریب طبقات اور عوام ملک کی بہتری ہوتی، مگر حکمرانوں کا مقصد اپنے اقتدار کی طوالت اور استحکام ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے کمزور حکمران اقتدار کی طوالت اور اسکے استحکام کیلئے ہمیشہ مغرب کی طرف دیکھتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت مغرب اپنے ایجنڈے پر ان حکمرانوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ پے در پے ہونیوالے کئی واقعات نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ یہ سب ایک بڑی حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایک طرف جہاں اپنے اقتدار کو استحکام بخشنا ہے، دوسری طرف یہ ثابت کرنا ہے کہ موجودہ حکومت بہت لبرل ہے اور انکے ایجنڈے کو بخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچایا جارہاہے۔
اسلام ہرگز عورتوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا نہ ہی کوئی بھی حقیقی مسلمان یا مہذب انسان اس کی اجازت دے سکتا ہے، اسلام ہی نے تو عورتوں کو حقوق دئیے۔ نکاح جیسا باوقار سوشل کنٹرکٹ دیا۔ حق مہر اور وراثت میں حصہ دیا۔ نبی اکرمﷺْ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جو شخص دو بچیوں کی اچھی پرورش کریگا‘ قیامت میںا س کا معاملہ میرے ساتھ ہوگا۔ یہ اس بلند ترین درجے کی بشارت ہے جو عمر بھر کی ریاضت اور عبادت سے کوئی شاذ و نادر حاصل کر سکے۔ عورت کو اس سے بڑھ کر رتبہ کہاں مل سکا ہے کہ اسکے قدموں تلے جنت قرار دی گئی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو عیاں ہو گا کہ اسلام ہی وہ نظام پیش کرتا ہے جس میں عورتوں کو معاشرے میں سب سے زیادہ باوقار مقام، حقوق اور تحفظ ملتا ہے۔ آج اگر پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں عورت پر تشدد ہو رہا ہے یا وہ ظلم کا شکار ہے تو اسے اس کا حق دلانے کیلئے اسلام سے بہتر کوئی آپشن نہیں لیکن اگر اسلامی ممالک کے معاشروں میں خواتین پر ہونیوالے ظلم کو اسلام ہی کے کھاتے میں ڈالا جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہو سکتی اور ہمارا حکمران طبقہ دراصل یہی غلطی کر رہا ہے جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوانین پہلے سے موجود ہیں، انہیں لاگو کرنے اور ان پر عمل درآمد کیلئے انکے پاس وہ صلاحیت اور استعداد نہیں ہے، ہمارا موجودہ نظام قانون تو دیتا ہے انصاف نہیں دیتا۔ بیس بیس سال گزر جاتے ہیں، مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ مسائل کا حل موجودہ قوانین پر عمل درآمد ہے۔ مثال کے طور پر ایوب خان کے دور میں قانون منظور ہوا تھا کہ ہر سائیکل اور ریڑھی والا لائٹ لگا کر چلے گا تاکہ حادثات سے بچا جا سکے کیا اس قانون پر عمل ہو رہا ہے؟ اسّی فیصد لوگ پاکستان میں بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، مسائل کا حل مزید نئے قانون بنانے سے نہیں ہو گا بلکہ صحیح معنوں میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں آئین سازی سے ہو گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے آئین سازی کیلئے تقریباً نو ہزار صفحات پر مشتمل تجاویز دی ہیں، مگر افسوس کوئی توجہ اس جانب نہیں دی جارہی ہے۔
ایسی صورت میں ہمارے پاس پُر امن راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو متحرک کریں۔ انہیں بتائیں کہ وہ تمام تفرقات سے بالاتر ہو کر پاکستان کے جھنڈے تلے متحد ہو کر ایک منظم مزاحمت کریں۔ ہر غیر اسلامی قانون سازی کے خلاف جدوجہد کریں۔ آئین کی حدود کے اندر رہ کر پُر امن طریقے سے تمام ممکن کوششیں کریں۔ ہمیں جس قسم کے قوانین کا سامنا ہے، اس میں سب سے زیادہ متاثر یہی نئی نسل ہو گیاس لیے ہم انہیں متحرک کرینگے۔ انہیں راستہ بتائیں گے۔ ہم نے زیادہ سفر طے نہیں کرنا۔ ہمارے پاس ایک مملکت موجود ہے اور ایک آئین بھی موجود ہے جو قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان ایک پریشر گروپ بنائیں جو ووٹ کی سیاست میں پڑے بغیر اپنے ہی آئین پر عمل درآمد کرنے کیلئے جدوجہد کریں۔ جس دن صحیح معنوں میں ہمارے آئین پر عملد رآمد ہو گیا، اس دن تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائیگا۔ نہ خواتین کے حقوق کیلئے نئے اور قوانین لانے کی ضرورت ہو گی نہ ہی کوئی ظالم شخص اپنی شریک حیات کو آگ کی نذر کر سکے گا۔