قطع نظراسکے کہ ووٹر کسی بھی شعبے میں تعلیم ،تجربہ، ریسرچ ،سمجھ بوجھ یا واقفیت کا حامل ہے یا نہیں ہمارے نظام میں اسے صرف اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے پر ملکی و قومی قیادت کے چنائو میں رائے دہی کا اختیار مل جاتا ہے اور اسکی رائے کا اتنا ہی احترام ہے جتنا کسی اعلیٰ تعلیم یا فتہ کہنہ مشق اور صاحب رائے شخص کی رائے کا ہوسکتا ہے۔ہم اپنی معمولی سے معمولی گھڑی کی مرمت کیلئے لازمی طور پر کسی گھڑی ساز کے پاس جاتے ہیں، گھر یلو ضرورت کیلئے فرنیچر بنوانا ہو تو بڑھئی کی دوکان ڈھونڈتے ہیں دوائی کیلئے ڈاکٹر سے اورقانونی مشاورت کیلئے وکیل سے رجوع کرتے ہیں۔یہ کبھی نہیں ہوتا کہ متعلقہ شعبے کے ماہر کو چھوڑ کر ہم اپنا کام کسی جم غفیر کے سپرد کر دیں۔ووٹر نے فیصلہ صادر کرناہوتا ہے کہ دستیاب فہرست میں سے اسکے خیال میں کون ملکی اور قومی ذمہ داریوں سے بہتر طور پر عہدہ براء ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس نے دیکھنا ہے کس کا منشور ملکی،قومی اور عوامی مسائل کا بہتر حل پیش کرتا ہے۔مگر یہ بڑا فیصلہ کرنے کیلئے کسی تعلیم یافتہ صاحب رائے شخص کی رائے کو فوقیت حاصل نہیں۔کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ غیر تعلیم یافتہ یا نا تجربہ کار شخص کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے۔بین السطور یہ بھی مقصود نہیں کہ انکے ووٹ کی وقعت کو کم تر درجہ دیا جائے بلکہ منشاء یہ ہے کہ اس قدر اہم قومی فیصلے کا اختیار رکھنے والے شخص کی ذہنی بالیدگی اور معاشی آزادی نہ صرف جمہوریت کی ضمانت کیلئے بلکہ ریاست کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے جب تک ووٹر کی آگہی کے ساتھ ساتھ اسکی معاشی آزادی کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا جاتا ،قوم کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے نہ جمہوریت کی ۔ یہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ عوام کی معاشرتی اور معاشی حالت کو نہ صرف بہتر بنائے بلکہ معاشرتی انصاف کو یقینی بنانے کیلئے معاشرتی اور خاندانی زندگی میں زہر گھولنے والی برائیوں کا خاتمہ کرے۔ حسب لیاقت ملازمتوں کے حصول کیلئے رنگ و نسل ، جنس،ذات پات اور علاقائی تعصب جیسی لعنتوں کا خاتمہ کرے۔ صحت کی سہولتیں فراہم کرے ۔یہ وہ چند بنیادی آئینی حقوق ہیں جن سے پہلو تہی یا چشم پوشی کی ریاست کبھی متحمل نہیں ہو سکتی۔اگر ریاست عوام کے ان بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہتی ہے تو قرضوں کی خطیر رقوم کے باوجود بیرونی فنڈنگ اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ جیسی لعنتوں کا تدارک ناممکن ہے۔ جو کسی صورت میں جمہوریت کیلئے سودمند ہے نہ قومی یگانگت کیلئے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت پروان چڑھے تو پھر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی مقدم ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں قومی یکجہتی کی پرواہ کئے بغیر شد و مد سے جمہوریت کیلئے خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔جو کسی لحاظ سے بھی دانائی کی بات نہیں ۔جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے ہمیں اپنے غیر جمہوری رویے کیوں بھول جاتے ہیں۔کیا جمہوریت محض چند خاندانوں کی حکومت کا نام ہے۔کیا خود سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کا کوئی نام و نشان ہے۔کیا اکثر سیاسی جماعتوں کی سر براہی پر چند مخصوص خاندانوں کا غلبہ نہیں۔کیا اس حمام میں سب کے سب ننگے نہیں۔کیا یورپ امریکہ میں بھی ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت کی سربراہی پر کوئی ایک ہی فرد یا خاندان نسل در نسل قابض رہے۔ یہاں تو اقتدار ملتے ہی پورے خاندان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ اولادیں معتبر بن جاتی ہیں۔اور وقت آنے پر انہیں بڑی ہنرمندی سے جمہوریت کے حسن اور قومی مفاد کے نام پر لانچ کیا جاتا ہے۔گریجوایشن کی شرط کی صورت میں جب خاندان میں ایک بھی گریجوایٹ نہ ملے توکم سن بیٹے کیلئے گریجوایٹ دلہن لا کر اپنی نشست پر اپنے مالکانہ حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ایسی صورت میں کسی ووٹر سپورٹر کو موقع دیکر سیٹ ہاتھ سے نکلنے کا رسک لینا بعید از قیاس ہوتا ہے۔سیاسی پارٹیوں کی سربراہی تو دور کی بات سہی قومی و صوبائی حلقے بھی پوری طرح موروثی سیاست کا گڑھ بن چکے ہیں۔ کسی بھی حلقے کی سیاست دو تین گھروں سے باہر جا ہی نہیں سکتی ۔کہیں ذات برادری کا تعصب کیش کیاجاتا ہے تو کہیں مقامی لڑائیوں سے جنم لینے والے دو گروپوں میں سے ایک کو پھر دوسرے کو تھانہ کچہری میں سپورٹ کا لالچ دیکر قابو کر لیا جاتا ہے۔تھانے پہلے ہی سیاسی گھرانوں کے گھڑے کی مچھلی کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ پیسہ بھی بولتا ہے اور کہیں کن ٹٹے اپنی بساط کیمطابق ایک دو پولنگ اسٹیشن جتوانے کا ٹھیکہ لے لیتے ہیں۔ قتل،کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے بہت سے مقدمات منظر عام پر نہیں آتے مگر ان گھرانوں کے چشم و چراغ یا پروردہ جب کبھی قتل، کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے مقدمات کا سامنا کرتے ہیں تو یہ وکٹری کا نشان بناتے ہیں اور انکے کاسہ لیس منوں کے حساب سے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ میڈیا کوریج دیتے ہوئے انہیں مقبولیت کے بلند ترین مقام پر فائز کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔اشتہاری مجرموں کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کیلئے پناہ دی جاتی ہے اور ایسے مجرموں تک پولیس کی رسائی نہیں ہوتی۔ انتخابات میں دھونس دھاندلی کے واقعات عام سننے کو ملتے ہیںمگر کوئی گواہی دے کر دشمنی مول لینے کی جرأت نہیں کرتا،ایک ایک حلقے میں کئی کئی بے گناہ لوگ قتل ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ امیدوار ہی کو مار دینے کے واقعات ہو جاتے ہیں۔یہ کیسا جمہوری نظام ہے جس کی بنیادیں انصاف، ایمانداری ،میرٹ ،مساوات اور اصول کی بجائے بے گناہوں کے خون، قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ ،کرپشن ،ہارس ٹریڈنگ منی لانڈرنگ جیسی کربناک معاشرتی برائیوں اور ظلم کی گھٹا ٹوپ داستانوں پر قائم ہیں۔ کیا یہ جمہوری معاشرہ ہے یا کسی جنگل کا منظرنامہ جہاں قسمت کے فیصلے جنگل کا بادشاہ کرتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ظلم سے لبریز فرسودہ نظام پر بضد رہنے کی بجائے حق سچ ایمانداری مساوات اور انصاف پر مبنی کرپشن فری جمہوری پاکستان پر غور کریں۔