اسلام آباد+ پشاور (بی بی سی+ رائٹرز) افغانستان میں مصالحتی عمل کیلئے قائم چار ملکی گروپ نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان آمنے سامنے مذاکرات کی امید تو پیدا کردی ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں زیادہ پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس گروپ نے مارچ کے پہلے ہفتے میں مذاکرات کی نوید سنائی تھی لیکن دوسرا ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی یہ عمل شروع نہیں ہوسکا ہے۔ افغان طالبان کے مذاکرات سے صاف انکار کے بعد تو یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ یہ اونٹ بیٹھ پائے گا بھی کہ نہیں۔ حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار نے حال ہی میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر کے بات چیت کے ذریعے کسی حل کی امید قدرے بڑھائی ہے لیکن اس کے باوجود مبصرین کسی حتمی امن معاہدے کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ سینئر صحافی شمیم شاہد کا کہنا ہے پاکستان کی حد تک دہشت گردی سے متعلق ابہام بدستور قائم ہے۔ افغانوں کی حد تک سب اس بات پر متفق ہیں کہ مصالحت ہونی چاہئے لیکن پاکستان میں تقسیم ہے۔ یہاں حکومت بھی منقسم ہے، ادارے بھی منقسم ہیں اور سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی تقسیم ہیں۔ وہ دہشت گردی کو اس طرح دہشت گردی قرار نہیں دے رہے جس طرح افغانستان میں کرتے ہیں۔ دریں اثناء رائٹرز کے مطابق افغان طالبان نے خفیہ اجلاسوں میں پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات میں شرکت کا دبائو مسترد کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی عہدیداروں سے 2 ہفتے قبل ہونیوالی ملاقاتوں کے بعد طالبان کی سپریم کونسل کے نامعلوم مقام پر ہونیوالے اجلاس میں مارچ کے آغاز میں مذاکرات میں شرکت کو مسترد کردیا گیا۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق طالبان اب پاکستان سے نکالے جانے کی دھمکیوں سے بے نیاز ہوتے جا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق طالبان نے افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کے نئے زونز بنالئے ہیں اور اب انہیں پاکستان کی زیادہ مدد کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ ایک پاکستانی عہدیدار نے کہا ہم نے طالبان کو متعدد بار کہا ہے کہ مذاکرات میں شامل ہوں ورنہ انہیں ملک چھوڑنا پڑیگا۔ بعض طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے مگر شوریٰ ارکان کی منظوری کے بغیر فیصلہ نہیں کرسکتے۔