لاہور (معین اظہر سے) پنجاب میں انتہاپسندی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے گزشتہ 9 ماہ کے دوران 193 مساجد پر قبضے کے علاوہ ایک فرقہ کی دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے 110 واقعات ہوئے جبکہ 2248 واقعات میں لاوڈ سپیکر کا غیر قانونی استعمال کیا گیا ۔ کالعدم تنظیموں سمیت مذہبی جماعتوں نے 476 احتجاج کئے۔ 74 انتہا پسند جو شیڈول چار میں تھے اپنے علاقوں سے غائب ہو گئے ہیں۔ پولیس کے ذرائع مطابق انتہا پسندی کو کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے انتہا پسندوں کی سپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ ہمارے اداروں کے درمیان کوارڈنیشن کا فقدان ہے حکومت کی جانب اس پر جامع پالیسی نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق پولیس صرف کاغذی کاروائیوں میں مصروف ہے جس کی وجہ سے گراونڈ لیول پر کوئی بھی کام نہیں ہورہا جبکہ حکومت نے اربوں کے فنڈز پولیس کو دئیے ہیں۔ تفصیل کے مطابق پنجاب میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی وجہ سے مساجد پر قبضوں کے جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے جسے پولیس اور انتظامیہ حل کرانے میں ناکام نظر آتے ہیںا س بارے میں سپیشل برانچ پنجاب سے جو ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے اس کے مطابق پنجاب میں 193 مساجد پر قبضہ کے جھگڑے چل رہے ہیں۔ ان میں سے 46 امامت کے ایشو ہیں، 37 این او سی اور 30 مساجد کمیٹی کے ایشو ہیں۔ 110 ایسی تقاریر پانچ ماہ میں رپورٹ ہوئی ہیں جن میں ایک دوسرے کیخلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔ اسی طرح 476 احتجاج کے واقعات میں 235 ریلیاں نکالی گئیں اور ہڑتال کے 4 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 17 فرقہ ورانہ شدید جھگڑے شیخوپورہ، خوشاب، گوجرانوالہ، جہلم، رحیم یار خان، لاہور ، مظفر گڑھ، سرگودھا، ساہیوال، پاکپتن اور قصور میں ہوئے۔ شیڈول فور میں شامل انتہا پسند ملتان، اٹک سے 10 ، خانیوال سے 6 ، بہاولپور، گجرات، جھنگ اور وہاڑی سے چار چار افراد غائب ہوئے۔