سائنسدان!!! سیاستدان؟

ہمارے اخبارات سیاستدانوں کے بیانات سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ بیانات تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک عظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کے انتقال کی خبر ہے۔ اس نے سائنسی دنیا میں جو کمالات کیے ان کا تذکرہ اس سے پہلے کم کم سنا۔ میں نے بھی ان کا نام دیکھا۔ انہیں آئن سٹائن کی طرح ایک بہت بڑا سائنسدان کہا جا رہا ہے۔ ان کی عمر 76 سال تھی۔ اتفاق سے ان کی وفات کا دن وہی ہے جو آئن سٹائن کی پیدائش کا ہے۔ یہ 14 مارچ کا دن ہے۔
انہوں نے تخلیق کائنات کے حوالے سے بڑی سوچ بچار کی۔ انہوں نے سائنسی موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں۔ ایک مقبول ترین کتاب کا نام ”اے ہسٹری آف ٹائم“ ہے۔ ”وقت کی مختصر ترین تاریخ“ ۔ ان کی اس کتاب کی ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
انہیں ایک لاعلاج مرض لاحق ہوا۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق وہ دو سال تک زندہ رہ سکیں گے مگر اس کے بعد وہ تقریباً پچاس سال زندہ رہے۔ اور ناقابل یقین کام کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی نے ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ویب سائٹ پر ڈالا۔ انٹرنیٹ صارفین کے رش کی وجہ سے ویب سائٹ کریش کر گئی، جس سے ان کی مقبولیت، کام کی اہمیت اور نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جو بیماری اسٹیفن ہاکنگ کو تھی اس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑتا جاتا ہے۔ وہ ایک مخصوص وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گئے۔ وہ بول چال کے لیے مخصوص آلات استعمال کرتے تھے۔ 2016ءمیں عظیم سائنسدان نے کہا تھا۔ انسان کو اپنی بنائی ہوئی تخلیقات سے خطرہ ہے۔ وہ گزشتہ 30 سال سے کیمبرج یونیورسٹی میں علم ریاضی کے پروفیسر تھے۔ ان کے تین بچے ہیں۔ انہیں برطانوی سلطنت کے کمانڈر کا خطاب دیا گیا۔ ان کے لیے سرکاری طور پر بہت مراعات اور سہولیات دی گئیں جن پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ ان کو ریسرچ کی ہاکنگ ریڈی ایشن کہا گیا۔ ان کے لیے عطیات کی بھرمار کے سبب ان کی ویب سائب تباہ ہو گئی تھی۔
ان کی تصویر ایک زندہ لاش کی طرح ہے مگر انہوں نے اپنی زندگی کو ایک اور زندگی بنا دیا۔ مایوسی اور بے بسی ان کے قریب نہیں پھٹکی تھی۔ وہ ساری دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔ آئن سٹائن کی طرح ان کا نام بھی سائنسی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان پر کام ہوتا رہے گا۔ سائنس میں ریسرح کی ابتدا مسلمانوں نے کی تھی اور اس علم کے حصول کے ایسے ایسے دروازے کھولے کہ آدمی کسی اور جہان میں پہنچ جائے۔ میں کچھ سیاستدانوں کی بڑائی اور خلوص کا قائل ہوں سب سے پہلے ذہن میں بانی پاکستان محمد علی جناح کا نام چمکتا ہے جنہیں اسلامیان برصغیر قائداعظم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں انہی کا نام سنا ہے جو غیرمتنازع ہے اور سب کو محبوب ہے۔
حیرت ہے کہ زندگی کو سکھ دینے والی کوئی چیز کسی غیرمسلم کی بنائی ہوئی نہیں ہے جبکہ اس راستے کے اہم ترین لوگ مسلمان ہیں۔
قائداعظم کا یہ فیصلہ ہم سب پاکستانیوں کو یاد ہے کہ انہوں نے انگلستان میں قانون کے حوالے سے اس عظیم تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا جس کے صدر دروازے پر قانون بنانے والے سب سے بڑے انسان آقا و مولا حضرت محمد کا نام لکھا ہوا ہے۔ آج بھی اگر مسلمان اپنی صلاحیتوں کو آزمائیں تو پوری دنیا کے لیے ایک محترم اور عظیم قوم بن سکتے ہیں۔
سیاستدانوں میں کئی بڑے نام ہیں۔ ان میں قائداعظم جیسا ایک بھی نہیں ہے مگر ہم نے قائداعظم کے بعد کوئی بھی بڑا سیاستدان پیدا نہیں کیا برصغیر میں ایک نام مسٹر گاندھی کا لیا جا سکتا ہے مگر خود ہندو گاندھی کو قائداعظم کے برابر کا سیاستدان نہیں مانتے۔
ہم مسلمان سیاستدانوں کا نام سنتے رہتے ہیں جس میں شاہ فیصل کو مسلمانان عالم اپنا بادشاہ سمجھتے ہیں۔۔ امام خمینی، کرنل قذافی، اتاترک کے علاوہ بھی کچھ نام ہیں مگر ان کی خدمات اپنے ہی ملک تک محدود ہیں۔ یہ بھی کہ ایسے منفرد اور باکمال آدمی کو بڑی طاقتوں والے زندہ بھی نہیں رہنے دیتے۔ کیا ہم نے صرف سیاستدان پیدا کیے ہیں۔ جو بعد میں حکمران بن جاتے ہیں۔ حکمران بھی بڑے آدمی ہوتے ہیں مگر ان میں مسلمانوں کے نام کتنے ہیں۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...