چین ہماری سوچ سے بھی آگے ، امریکہ تک کو چیلنج کررہا ہے : بھارتی آرمی چیف

نئی دہلی (بی بی سی) بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت نے کہا تھا کہ بھارت ایک ساتھ دو محاذوں پر جنگ کرنے کا اہل ہے اور ان کے اس بیان کو چین اور پاکستان کے میڈیا میں کافی توجہ ملی تھی لیکن اب وپن راوت نے چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اور چین سے ایک ساتھ نہیں نمٹ سکتے۔ بپن راوت نے کہا ہے کہ چین اپنی اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت بھی بڑھا رہا ہے اور امریکہ تک کو چیلنج کر رہا ہے ۔بپن راوت جو کل تک دو محاذوں پر ایک ساتھ لڑنے کی بات کر رہے تھے ان کا ایسا بیان خود بھارتی فوج کی طاقت پر سوالیہ نشان ہے۔ابزرور ریسرچ فاونڈیشن کے سوشانت سرین کہتے ہیں کہ پارلیمان کے سامنے فوجی سربراہ نے کہا تھا کہ فوج کا 68 فیصد سازو سامان پرانا ہو چکا ہے اور فوج کو جدید بنانے میں درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا تھا۔ ایسے میں ان کے اس طرح کے بیانات کا کیا مقصد ہے۔سوشانت سرین کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ چین اور پاکستان کی بڑھتی دوستی سے بھارت کو دو جانب سے خطرہ ہے لیکن کیا بھارتی فوج کی تیاری اس سطح کی ہے۔اور اگر ہے بھی تو کیا دو مورچوں سے سامنا کرنا مناسب ہوگا یا پھر سفارتی طریقہ اپنانا چاہئیے۔ان حالات میں فوجی سربراہ کو بیانات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھارتی فوج کے سربراہ بیان بازی سے دو رہتے تھے لیکن راوت صاحب زیادہ ہی بیان دیتے ہیں اب معلوم نہیں کہ وہ خود ایسا کرتے ہیں یا پھر حکومت ان سے بیان دینے کو کہتی ہے جو بھی ہو یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں بھارت میں اسلحہ کی برآمد میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے اور بھارت سب سے زیادہ روس اور اس کے بعد امریکہ سے اسلحہ خریدتا ہے۔اور مبصرین کو تشویش ہے کہ اس دوران بھارتی فوج میں جو ریسرچ اور جدید کاری کی جانی تھی وہ نہیں ہوئی اور بھارت کو اپنی فوجی ضرورت کا سامان حود ہی بنانا چاہئیے تھا وہ اسے بہت بڑی ناکامی تصور کرتے ہیں۔سوشانت سرین کا کہنا ہے کہ جب دنیا میں حالات بدلتے ہیں تو دوسرے ممالک سے دوستیاں اور دشمنیاں بھی بدلتی ہیں اب چونکہ ہمارا ساٹھ سے ستر فیصد فوجی سامان روس سے آتا ہے اور اگر مستقبل میں روس کی نییت بدلتی ہے تو ہم کیا کریں گے۔2014 میں جب مودی حکومت آئی تو دفاع کے شعبے میں بھارت کو خود انحصار بنانے کے لیے میک ان انڈیا پروگرام شروع کیا گیا لیکن بات اگے نہیں بڑھی۔

ای پیپر دی نیشن