اُترن چھوڑیں، سینیٹ تو اُنہی کے نام رجسٹرڈ ہوئی

ٹھیک 83 برس پہلے یعنی 16 مارچ 1935ء کو برصغیر میں ایک مسلمان بچی نے جنم لیا۔ اُس نے جامعہ عثمانیہ سے اردو ادب میں گریجویشن کی۔ اُس لڑکی نے نوجوانی میں ہی اردو ادب تحریر کرنا شروع کردیا تھا۔ بیباک اور تہلکہ خیز تلخ نفسیاتی حقیقتوں پر مبنی اُس خاتون ادیبہ کی تحریروں کے 27 مجموعے اب بھی اردو ادب پڑھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ پچھلی صدی کی تیز تحریروں والی اس ادیبہ کو لٹریچر میں واجدہ تبسم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُن کی تحریروں پر بہت سے ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں۔ واجدہ تبسم کا ایک مشہور افسانہ ’’اُترن‘‘ ہے۔ اس کہانی میں مصنفہ نے ایک ہی جگہ رہنے والی دو مختلف طاقتوں کا ذکر کیا ہے جو اکٹھے کھانے پینے اور اکٹھے عمر گزارنے کے باوجود ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ایک کو اپنی مادی طاقت کا زعم ہے جبکہ دوسری کو اپنے حسن کے میرٹ کی طاقت کا خمار ہے۔ ایک طاقت مغرور ہے جبکہ دوسری طاقت حسد میں سب کچھ کرجاتی ہے۔ کہانی میں پرانے زمانے کے ایک نواب خاندان کے گھر کی منظرکشی کی گئی ہے۔ اِس خاندان میں پرانی روایات قائم ہیں جن کے تحت نہ صرف خاندان کے لوگ آپس میں ملتے جلتے ہیں بلکہ انہی اقدار کے تحت وہ اپنے ملازمین کے ساتھ بھی خاندانی روایتی برتائو ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف نئی نسل کے ذہن میں روایات کے حوالے سے سوالات پیدا ہونے سے فساد جنم لیتا ہے۔ کہانی میں تین مرکزی کردار ہیں جن میں دو لڑکیاں شہزادی پاشا اور چمکی ہیں۔ تیسرا اہم کردار چمکی کی ماں انابی ہے۔ شہزادی پاشا امیر نواب کی اکلوتی اولاد ہے۔ قدیم طریقے کے مطابق اُسے دودھ پلانے اور اُس کی دیکھ بھال کے لئے انابی کو نواب کے محل میں مستقل ملازمت دی گئی۔ انابی کی اپنی اکلوتی اولاد چمکی ہے۔ شہزادی پاشا اور چمکی ہم عمر اور کمسن ہونے کے ناطے اکٹھے کھیلتی اور پرورش پاتی رہیں مگر شہزادی پاشا کم عمر ہونے کے باوجود اپنے ذہن میں مالکن کا غرور رکھتی تھی۔ چمکی یہ سوچتی کہ وہ بھی شہزادی پاشا جیسی لڑکی ہے بلکہ وہ شہزادی پاشا سے زیادہ خوبصورت ہے پھر شہزادی پاشا اُس پر رعب کیوں جماتی ہے؟ روایت کے مطابق نوابی خاندان کے تمام استعمال شدہ کپڑے جنہیں اُترن کہا جاتا انابی اور چمکی کو دے دیئے جاتے۔ چمکی کے لئے یہ بات بہت چبھن کی ہوتی کہ وہ ہی شہزادی پاشا کی اُترن کیوں پہنتی ہے، شہزادی پاشا اُس کی اُترن کیوں نہیں پہن سکتی؟ نوابی روایت کے خلاف چمکی کے اس باغی شعور سے انابی بہت سہم جاتی کیونکہ اس طرح اُسے اپنی ملازمت کے چلے جانے کا خوف لاحق ہوتا لیکن چمکی ماں کی اس دلیل کو دل سے قبول نہ کرتی۔ دونوں لڑکیاں اپنے اپنے مزاج کے مطابق بڑی ہوئیں۔ شہزادی پاشا میں مالکن کا غرور تھا جبکہ چمکی کے ذہن میں سوالات اور طاقت کے خلاف کشمکش تھی۔ دونوں نے ایک ہی استاد سے گھر میں تعلیم حاصل کی۔ جب حسب ضرورت تعلیم مکمل ہوگئی تو شہزادی پاشا کے لئے جشن کا انتظام کیا گیا۔ خوشی کے اِس موقع پر شہزادی پاشا کے لئے سونے چاندی کی کڑھائی والے قیمتی کپڑے تیار کئے گئے جبکہ نواب صاحب کی بیگم نے چمکی کے لئے عام سے کپڑے کا پہلی مرتبہ ایک نیا گلابی سوٹ بھی سلوا دیا۔ جشن کے بعد شہزادی پاشا کے وہ قیمتی کپڑے بھی اُترن کے طور پر چمکی کو دے دیئے گئے۔ انابی وہ کپڑے لے کر اپنے کوارٹر میں آئی اور پھولے نہ سماتے ہوئے قیمتی اترن چمکی کو دکھانے لگی۔ چمکی نے ماں کی خوشی کو نظر انداز کرکے قیمتی کپڑوں کو حقارت سے دیکھا اور ماں سے سوال کیا کہ میں کب تک شہزادی پاشا کی اُترن پہنتی رہوں گی؟ چمکی کے نزدیک شہزادی پاشا کی ماں سے اُسے ملنے والا معمولی نیا گلابی سوٹ شہزادی پاشا کی اِس قیمتی اترن سے زیادہ قیمتی تھا۔ چمکی کو وہ نیا معمولی سوٹ بہت پیارا تھا کیونکہ وہ کسی کی اترن نہیں تھا۔ انہی رویوں کے ساتھ دونوں لڑکیاں جوانی کی دلفریب عمرکو پہنچ گئیں۔ نواب صاحب کی بیگم نے اپنی بیٹی شہزادی پاشا کا ایک دوسرے نواب صاحب کے لڑکے سے رشتہ طے کردیا۔ فراغ دلی والی نوابی روایت کے مطابق نواب صاحب کی بیگم نے اپنی ملازمہ کی بیٹی چمکی کے لئے بھی ایک عام سے لڑکے کا رشتہ پسند کرلیا اور شہزادی پاشا کی شادی کے چند دن بعد چمکی کی شادی کا دن بھی مقرر ہوگیا۔ مہندی کی رات شہزادی پاشا نے اپنی سہیلیوں کو بتایا کہ چند دن بعد چمکی کی بھی شادی ہے۔ سہیلیوں نے پوچھا کہ چمکی کے جہیز میں کیا ہے؟ شہزادی پاشا نے غرور بھری مسرت سے بتایا کہ میری اُترن کافی ہوگی جس سے چمکی کا بہت زیادہ جہیز بن جائے گا۔ چمکی کے دل میں اُترن کے خلاف پلنے والی ساری عمر کی نفرت انتہا کو پہنچ گئی اور اُس نے ایک فیصلہ کرلیا۔ روایت کے مطابق شادی سے پہلے کی رات چمکی شہزادی پاشا کے سسرال والوں کے گھر دلہا کو مٹھائی کھلانے گئی۔ چمکی دلہا کے کمرے میں پہنچی۔ دلہا میاں دن بھر کے تھکے ہوئے اپنی مسہری پر آرام کررہے تھے۔ اچانک دروازہ کھلنے سے وہ چونک گئے۔ چمکی نے انہیں بتایا کہ وہ شہزادی پاشا کے بچپن کی سہیلی ملازمہ ہے اور روایت کے مطابق انہیں مٹھائی کھلانے آئی ہے۔ اُس وقت کمرے میں اُن دونوں کے علاوہ صرف تنہائی تھی۔ دلہا میاں چمکی کی چمک اور خوبصورتی کے آگے ڈھیر ہو گئے۔ چمکی نے فتح کے نشے میں ان کا حوصلہ بڑھایا۔ یوں دونوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرلئے۔ اُس رات چمکی نے اپنا وہی نیا گلابی سوٹ پہنا تھا۔ شادی کے چند دن بعد جب شہزادی پاشا اپنا دلہن والا جوڑا اُترن کے طور پر چمکی کو دینے آئی تو چمکی نے ہنس کر کہا کہ میں نے ساری عمر تمہاری اُترن استعمال کی، اب ساری عمر تم میری اُترن استعمال کرتی رہو گی۔ چمکی کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن چمکی قہقہے لگاتے ہوئے اپنی بات دہراتی رہی۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ چمکی اور شہزادی پاشا بچپن کی ساتھی تھیں، شہزادی پاشا کے دور چلے جانے سے چمکی کے ذہن پر اثر ہوگیا ہے۔ کہانی یہاں ختم ہوگئی۔ ایک صاحب شرارت نے اس کہانی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیشک شہزادی پاشا کا شوہر چمکی کا اُترن تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ شادی تو شہزادی پاشا کی ہی رجسٹرڈ ہوئی۔ن لیگ والے جتنا مرضی شور مچا لیں کہ سینیٹ اُن کا حق تھا اور پیپلز پارٹی و پی ٹی آئی نے ہارس ٹریڈنگ کی لیکن اُن کے شور مچانے سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ سینیٹ تو کسی اور کے نام ہی رجسٹرڈ ہوئی ہے ناں۔

ای پیپر دی نیشن