رائیونڈ خودکش حملے میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت دس شہریوں کی شہادتیں۔ اقتدار کی جاری رسہ کشی کا شاخسانہ
رائے ونڈ میں تبلیغی مرکز کے باہر اور پولیس چیک پوسٹ کے قریب خودکش حملہ میں منگل کی شب پانچ پولیس اہلکاروں سمیت دس شہری شہید اور 30 زخمی ہوگئے۔ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان ہے۔ ڈی آئی جی اپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کے مطابق اس بزدلانہ کارروائی میں پولیس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار‘ ریسکیو 1122 ‘ بم ڈسپوزل سکواڈ اور دوسری امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ زخمیوں کو شریف میڈیکل کمپلیکس اور رائے ونڈ تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے جائے وقوعہ کو سیل کرکے قریبی آبادیوں میں سرچ اپریشن بھی کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے آئی جی پولیس پنجاب سے فوری طور پر اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رائے ونڈ اجتماع گاہ کی طرف جانیوالے راستے پر قائم نثار چیک پوسٹ پر اے ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت متعدد پولیس اہلکار موجود تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوگیا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور افراتفری پھیل گئی جبکہ اردگرد کی عارضی دکانوں میں آگ بھڑک اٹھی اور پنڈال میں بھگدڑ پیدا ہوگئی جسے چاروں جانب سے سیل کردیا گیا۔
یہ دھماکہ نماز عشاء کی ادائیگی سے چند منٹ قبل ہوا۔ اس وقت چھ روزہ جوڑ (منی اجتماع) میں عشاء کی اذان کے بعد نماز کیلئے صفیں باندھی جارہی تھیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار خودکش بمبار نے جائے وقوعہ پر خود کو دھماکے سے اڑایا جو پنڈال کی طرف جانے کی کوشش کررہا تھا تاہم اس نے پولیس چیک پوسٹ کے پاس پہنچتے ہی خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ اگر وہ اجتماع میں داخل ہوجاتا تو بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پنڈال میں چار لاکھ افراد موجود تھے۔ صدر مملکت ممنون حسین‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ سابق وزیراعظم نوازشریف‘ آصف علی زرداری‘ عمران خان‘ چودھری شجاعت حسین‘ بلاول بھٹو زرداری‘ سراج الحق اور طاہرالقادری سمیت ملک کے تمام قومی سیاسی اور دینی قائدین نے تبلیغی اجتماع کے پاس خود کش دھماکے کی اس واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس کے مطابق 30 زخمی افراد میں اے ایس پی رائے ونڈ زبیر ندیم سمیت 9 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پنجاب کا صوبائی دارالحکومت گزشتہ کافی عرصے سے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھنے سے بچا ہوا تھا اور یہاں امن و امان کی مستقل بحالی کی فضا ہموار ہورہی تھی۔ امن و امان کے اسی عرصے میں قذافی سٹیڈیم لاہور میں دو بار پاکستان سپرلیگ کا انعقاد ہوا جس میں زندہ دلانِ لاہور کے علاوہ ملک بھر سے کرکٹ کے شائقین نے پرجوش انداز میں شریک ہو کر دہشت گردوں کے افراتفری کے ایجنڈے کو ناکام بنایا۔ اگرچہ ملک کے دوسرے حصوں میں امن و امان کی مثالی صورتحال ابھی تک قائم نہیں ہو سکی تاہم لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں کا دہشت گردی سے محفوظ رہنا دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی کی نوید تھی جس کیلئے پنجاب میں شروع کئے گئے سکیورٹی فورسز کے کومبنگ اپریشن سے بھی دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی کا راستہ ملا تاہم اس وقت جبکہ یکم اپریل سے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے دورۂ لاہور کے ساتھ ہی قذافی سٹیڈیم لاہور میں پی ایس ایل کا انعقاد ہونا ہے اور رائے ونڈ اجتماعی مرکز میں تبلیغی سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوچکا ہے‘ دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی جانب سے لاہور میں دہشت گردی کیلئے موجودہ وقت کا انتخاب کرنا بادی النظر میں اس امر کی ہی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے درپے اندرونی و بیرونی عناصر بالخصوص بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کو لاہور میں سکیورٹی انتظامات میں موجود لیپس اور پیدا ہونیوالی کمزوریوں سے مکمل آگاہی تھی جس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور خودکش حملے کیلئے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں زیادہ جانی نقصان ہونے سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا اور افراتفری پیدا ہوسکتی ہو۔ اس حوالے سے یہ امر زیادہ تشویشناک ہے کہ جائے وقوعہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی جاتی عمرہ میں حکمران خاندان کی اقامت گاہیں موجود ہیں‘ اگر اس مصروف‘ اہم اور ہائی پروفائل علاقے میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود ملک دشمنوں کو اپنے متعینہ ٹارگٹ پر پہنچ کر دہشت گردی کی سہولت حاصل ہوئی ہے تو اس صورتحال پر ’’سب اچھا‘‘ کا لیبل ہرگز نہیں لگایا جا سکتا۔
اس سانحہ پر بے شک ملک کی تمام قومی سیاسی قیادتوں اور حکومتی اکابرین نے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اس واقعہ کا فوری نوٹس لے کر بے شک زخمیوں کو علاج معالجہ میں سہولت بہم پہنچانے کی ہدایت کی ہے تاہم اس امر کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت بہرصورت موجود ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی ہر سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے کس بنیاد پر کمزوریاں باقی رہ جاتی ہیں جو بالآخر شہریوں کے ناقابل تلافی نقصان پر منتج ہوتی ہیں۔ اس وقت جبکہ ہمارا دیرینہ مکار دشمن بھارت ہماری سلامتی کیخلاف جارحیت پر اترا ہوا ہے جس نے بلوچستان کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی کا نیٹ ورک وسیع کر رکھا ہے جبکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بدنیتی کے تحت یہاں فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھانے کی بھی مسلسل سازش کی جارہی ہے۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کو تو شہریوں کی جان و مال اور ملک کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کیلئے ہمہ وقت مستعد و چوکس رہنا چاہیے تاکہ دشمن کو ہماری کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ بدقسمتی سے آج ملک میں ادارہ جاتی اتحاد و یکجہتی اور قومی ہم آہنگی کی ایسی مثالی فضا موجود نہیں کہ دشمن کی سازشوں کا اسے موقع پر ہی ٹھوس اور مسکت جواب دیا جاسکے چنانچہ دہشت گردی کا ناسور پھیلتا ہی چلاجارہا ہے جس میں ہمارے حکومتی و اپوزیشن سیاست دانوں کی باہمی سر پھٹول اور ہمارے قومی ریاستی اداروں بشمول عدلیہ‘ مقننہ اور افواج پاکستان کی جانب سے اپنے آئینی کردار سے ہٹ کر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کو وطیرہ بنانے کا زیادہ عمل دخل نظر آتا ہے۔
آج ملک میں نئی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے پارلیمانی سیاسی قائدین اور انکی جماعتوں کی جانب سے انتخابی عمل میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی فضا بھی ہموار کی جاچکی ہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سمیت تمام پارلیمانی پارٹیوں نے باضابطہ طور پر ملک میں رابطۂ عوام مہم اور پبلک جلسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ایسے مواقع پر تو سخت ترین سکیورٹی انتظامات کرکے سفاک دہشت گردوں اور انکے معاونین و سرپرستوں کے عزائم خاک میں ملانے کا خصوصی بندوبست کیا جانا چاہیے چہ جائیکہ قوم اپنی صفوں میں ہونیوالی کسی دہشت گردی کی واردات پر اپنے حوصلے ہار بیٹھے۔ بدقسمتی سے ہمارے متعلقہ قومی ریاستی آئینی اداروں نے انتظامیہ کے کرنے کے کاموں کا بھی حکمرانوں کو بیڈگورننس پر موردالزام ٹھہرا کر بیڑہ اٹھالیا ہے جس سے جہاں ادارہ جاتی محاذآرائی کی افسوسناک صورتحال تقویت پارہی ہے وہیں ایک مستحکم ہوئے جمہوری نظام کو نہ چلنے دینے کا تاثر بھی پختہ ہورہا ہے۔ یہی وہ کمزوریاں ہیں جن سے ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملتا ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا مستحکم ہوتی امن و امان کی فضا میں پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آنا تو ایک دوسرے کے لتّے لینے والے قومی‘ سیاسی‘ عسکری قائدین کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ رائے ونڈ خودکش حملے سے صرف لاہور اور اسکے نواح میں ہی نہیں‘ پورے ملک میں عدم تحفظ کا احساس پھر سے پیدا ہوگیا ہے۔
یقیناً ایسی افسوسناک صورتحال سے حکمرانوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ریاستی مشینری کی حیثیت سے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کا قیام حکومت ہی کی ذمہ داری ہے جسے اس نے سکیورٹی اداروں کی معاونت سے بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اگر باہم چپقلش اور کشمکش سے حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قائدین اور اداروں میں ہم آہنگی کی مثالی فضا ہی استوار نہ ہوسکے اور وہ باہم دست و گریباں نظر آئیں تو ہمارا دشمن ہماری سلامتی کمزور کرنے کے ایسے مواقع ضائع تھوڑا جانے دیگا۔ اس تناظر میں خودکش حملے کی گزشتہ روز کی واردات ملک کی سلامتی کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کی کھلی نشاندہی کرتی نظر آرہی ہے جو تمام متعلقین سے ہوش کے ناخن لینے اور ہر قسم کے سکیورٹی لیپس پر قابو پانے کی متقاضی ہے۔ اگر ہم نے باہمی مناقشتوں اور اقتدار کی رسہ کشی میں ملک کی سلامتی کے تقاضے نبھانے پر توجہ نہ دی تو کل کو خدانخواستہ اس وطن عزیز کو کوئی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ ہماری عسکری قیادتوں کو تو اس حوالے سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام کیلئے زیادہ الرٹ ہونے کی ضرورت ہے جنہوں نے اس معاملہ میں حکومتی انتظامی مشینری کے احکام کی تعمیل کرنا ہوتی ہے۔ اگر کسی حکومت کی گورننس کے بارے میں انکے دل میں بال آیا ہوا ہوگا تو وہ ملک کی سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داریاں نبھانے کے معاملہ میں حکومتی احکام کی خوش دلی سے تعمیل کیلئے بھی یکسو نہیں ہو پائیں گی۔ اس تناظر میں آج ملک کی سلامتی اور خودمختاری کو تمام معاملات پر مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی نہیں رہے گا تو اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل کس سرزمین پر کھیلا جائیگا۔