سینیٹر کرشنا کماری کے محبوب تھر میں اجنبی ؟

Mar 16, 2019

خالد کاشمیری

ارض وطن کے پسماندہ ترین، غربت کے مارے اور صاف پانی کی بوند بوند کو ترستے پاکستانیوں کے علاقہ تھرپارکر کے دلوں کی دھڑکن سنیٹر کرشنا کماری نے جس خوبصورت پیرائے میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ تھر پر تبصرہ کیا ہے اور اسی دلچسپ تبصرے میں الفاظ کے جونگینے جڑے ہیں اور الفاظ کی جادوگری سے اپنے علاقے کے عوام کی جو ترجمانی کی ہے۔ وہ انہی کا حصہ ہے اور ایسا کام اسی کے ہاتھوں یا قلب و ذہن سے انجام پا سکتا ہے جو اپنے عوام کے دکھوںاور ان کی سسکیوں کے محرکات سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اس کے مداوا کے لئے بھی اپنی سی کوششوں کو بروئے کار لانے میں اپنی زندگی وقف کرنے کی لگن سے دوچار ہو۔ کرشنا کماری پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران کے گزشتہ دنوں دورہ تھر کے دوران میں چھاچھرہ کے جلسہ عام میںخطاب کے موقعہ پر وہاں کے حالات کا جو نقشہ الفاظ میں کھینچا اس میں انہوں نے وہ سبھی کچھ کہہ دیا۔ جسے نہ صرف چھاچھرہ کے یا تھر کے مفلس قلاش عوام ہی نے نہیں بلکہ ملک کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والی عظیم اکثریت محسوس کرتی ہے اور برسر اقتدار سیاسی جماعت کے دعوئوں اور نعروں کو سراب ہوتے دیکھ رہی ہے۔ کرشنا کماری نے وزیراعظم عمران خان کے وطن کے ایک محروم ترین علاقے میں عرصہ دراز کے بعد اچانک دورے کو ’’تھر میں ایک اجنبی کی آمد‘‘ کہا ہے ان کے الفاظ میں ایک اجنبی ان کے محبوب تھر میں گیا اور اس کی آمد پر چھاچھرہ میں غیر اعلانیہ کرفیوں کا سماں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ تو اس قسم کے کرفیو زدہ ماحول کا منطقی نتیجہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے ہو کے عالم میں ہسپتالوں تک جانے والے راستے مسدود ہوا کرتے ہیں جو ہوئے، ایسا اجنبی جہاں بھی جائے، وہاں ایسی ہی داستانیں رقم ہوتی ہیں اور یہ روایت کرشنا کماری کے وطن میں کئی عشروں سے جاری ہے۔ اسی لئے مستحکم بنیادوں پر جاری و ساری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسہا برس سے محرومیوں کا شکار وطن کے باسی جب ایوان اقتدار کے مکینوں کی آمد کا سنتے ہیں۔ وہ اپنی آسوں کے پورا ہونے کی امید لگائے آنیوالے کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کیا کرتے ہیں مگر تھر کے عوام کی امید یں کیوں پوری نہ ہوئیں ؟ یہی رونا کرشنا کماری نے ان الفاظ میں رویا ہے کہ اگر کچھ دینا نہیں تھا تو پھر تھر آنے کی زحمت کیوں کی؟ مگر اس موقعہ پر اپنی حس ظرافت کی تمام تر صلاحیتوںکا جوہر دکھاتے ہوئے کرشنا کماری ایک ’’ڈنڈی مارنا‘‘ نہ بھولیں، فرمایا،، کہ پیپلزپارٹی نے تھر کے عوام کی مثالی خدمت کی ہے جس کی وجہ سے تھر میں پیپلزپارٹی نے لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی اور تھر کے عوام نے اس کے امیدواروں کو کامیاب کیا ہے۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ خود کرشنا کماری اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں کہ گزشتہ دو عشروں سے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ تھرپارکر کی پسماندگی اور اسکے عوام کی مفلسی غربت اور محرومیوں میں اس طویل عرصے کے دوران کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دکھوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کے طبی، تعلیمی اور معاشی حقوق کی نگہداشت نہ ہونے کے باعث ان کے نوزائیدہ اور کم سن بچوں کی ایک نسل کو موت نے دبوچنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ صوبہ سندھ کے برسر اقتدار سیاستدانوں نے عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے زرکثیر کو تھر کے عوام کی بہتری اور انہیں جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کی ضروریات فراہم کرنے کے فرض کو پس پشت ڈالے رکھا اور حالت بہ اینجار سید کہ کرشنا کماری کے محبوب علاقہ تھر کے مستقبل کے معماروں کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر کو حسین ترین بنانے والے پرندے بھی موت کی نذر ہونے لگے۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان تھر کے مفلوک الحال اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم عوام کی امیدوں کے چراغ روشن نہ کر سکے مگر انہوں نے تھر کے مستقبل کوتابناک ہونے کی نوید سے محروم لوگوں کو یہ کہہ کر بہلانے کی کوشش تو کی ہے کہ تھر کوئلہ کی دولت سے مالا مال ہے۔ معدنیات کے برآمد ہو جانے سے علاقہ کے لوگوں کو ملازمتیں ملیں گے اورخوشحالی آئے گی اور اگر انہوں نے اس علاقے اور اس کے عوام کے لئے بہت سی حوصلہ افزا باتیں بھی کیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سبھی نویدیں گا، گے، گی سے عبارت تھیں۔ جن کے ثمرآور ہونے ہی کتنی مدت درکار ہو گی اس کے بارے میں خود وزیراعظم نے بھی کسی اندازے کا ذکر نہ کیا۔ صحت پیکج کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایک لاکھ 12 ہزار گھرانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ کسی قسم کی بھی بیماری ہو تو 7 لاکھ 50 ہزار روپے کا علاج انہیں میسر ہو گا۔ اس حوالے سے تھر ایسے پسماندہ علاقے کے فاقوں کے مارے غریب و ناتواں گھرانوں میں یہ سوال بھر کر سامنے آیا ہوگا کہ ہیلتھ کارڈ وہاں کے کون سے سرکاری ہسپتالوں میں دکھا کر علاج کرایا جا سکے گا؟ جبکہ وزیراعظم واضح الفاظ میں اس بات کو بھی دہراتے رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سارے اختیارات صوبوں کو چلے گئے۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے سات لاکھ 50 ہزار روپے کے علاج کے صحت کے کارڈ کے استعمال کے لئے وہاں کی صوبائی حکومت کو ضروری فنڈز کب تک مہیا ہوںگے اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین حتمی فیصلے کب تک متوقع ہیں؟ ایسا نہ ہوا تو صوبہ سندھ کے علاقہ تھر میں لوگوں کو دئیے گئے صحت کارڈ کا مستقبل کیا ہوگا۔
یقیناً حزب اختلاف کے ارکان سمیت حکمران جماعت میں اقتدارکے مزے لوٹنے والوں کے طرز زندگی رہن سہن اوران کے کچن میں سہولتوں کی فراہمی میں تبدیلی آئی ہے۔ کیونکہ ان سبھی کو جمہوری اداروں کے رکن کی حیثیت سے ماہانہ جو مراعات عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہیں وہ تبدیلی ضرور ہے۔ جہاں تک تبدیلی کے نعروں کا تعلق ہے۔ یہ نعرہ لگانے والے تو بوجوہ تازہ دم ہیں مگر کروڑوں عوام یہ نعرہ سنتے سنتے تھک چکے ہیں۔ بلکہ نڈھال ہوگئے ہیں جنہیں جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنا دو بھر ہو چکا ہے۔ مفلوک الحال لوگوں کو تن کے کپڑوں سمیت ضروریات زندگی جن میں گھی، چاول اور دالیں بھی شامل ہیں ایسے داموں مہیاکرنے کا سوچا تک نہیں جا رہا جبکہ بجلی، سوئی گیس اور پانی کے بلوں میں اضافے کے غریبوں کا جینا بحال کر دیا ہے۔ ادھر پٹرول کی قیمتوں کو بھی بڑھایا جا رہاہے۔

مزیدخبریں